الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن نسائي کل احادیث (5761)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن نسائي
كتاب الصيام
کتاب: روزوں کے احکام و مسائل و فضائل
76. بَابُ: صَوْمِ يَوْمٍ وَإِفْطَارِ يَوْمٍ وَذِكْرِ اخْتِلاَفِ أَلْفَاظِ النَّاقِلِينَ فِي ذَلِكَ لِخَبَرِ عَبْدِ
76. باب: ایک دن روزہ رکھنے اور ایک دن افطار کرنے کا بیان اور اس سلسلہ میں عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کی حدیث کے رواۃ کے الفاظ کے اختلاف کا ذکر۔
حدیث نمبر: 2390
قَالَ وَفِيمَا قَرَأَ عَلَيْنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، قَالَ: أَنْبَأَنَا حُصَيْنٌ، وَمُغِيرَةُ , عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَفْضَلُ الصِّيَامِ صِيَامُ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام، كَانَ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمًا".
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: روزوں میں سب سے افضل داود علیہ السلام کے روزے ہیں، وہ ایک دن روزہ رکھتے، اور ایک دن افطار کرتے۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2390]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصوم 58 (1978)، وفضائل القرآن34 (5052)، (تحفة الأشراف: 8916)، مسند احمد 2/158، 188، 192، 210 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري

حدیث نمبر: 2391
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: قَالَ لِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو: أَنْكَحَنِي أَبِي امْرَأَةً ذَاتَ حَسَبٍ، فَكَانَ يَأْتِيهَا فَيَسْأَلُهَا عَنْ بَعْلِهَا , فَقَالَتْ: نِعْمَ الرَّجُلُ مِنْ رَجُلٍ لَمْ يَطَأْ لَنَا فِرَاشًا، وَلَمْ يُفَتِّشْ لَنَا كَنَفًا مُنْذُ أَتَيْنَاهُ، فَذَكَرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" ائْتِنِي بِهِ"، فَأَتَيْتُهُ مَعَهُ , فَقَالَ:" كَيْفَ تَصُومُ؟" , قُلْتُ: كُلَّ يَوْمٍ، قَالَ:" صُمْ مِنْ كُلِّ جُمُعَةٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ"، قُلْتُ: إِنِّي أُطِيقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ:" صُمْ يَوْمَيْنِ وَأَفْطِرْ يَوْمًا"، قَالَ: إِنِّي أُطِيقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ:" صُمْ أَفْضَلَ الصِّيَامِ صِيَامَ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام صَوْمُ يَوْمٍ وَفِطْرُ يَوْمٍ".
مجاہد کہتے ہیں کہ مجھ سے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے کہا: میرے والد نے میری شادی ایک اچھے خاندان والی عورت سے کر دی، چنانچہ وہ اس کے پاس آتے، اور اس سے اس کے شوہر کے بارے میں پوچھتے، تو (ایک دن) اس نے کہا: یہ بہترین آدمی ہیں ایسے آدمی ہیں کہ جب سے میں ان کے پاس آئی ہوں، انہوں نے نہ ہمارا بستر روندا ہے اور نہ ہم سے بغل گیر ہوئے ہیں، عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے اس کا ذکر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا: اسے میرے پاس لے کر آؤ، میں والد کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا، تو آپ نے پوچھا: تم کس طرح روزے رکھتے ہو؟ میں نے عرض کیا: ہر روز، آپ نے فرمایا: ہفتہ میں تین دن روزے رکھا کرو، میں نے کہا: میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں، آپ نے فرمایا: اچھا دو دن روزہ رہا کرو اور ایک دن افطار کرو، میں نے کہا: میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا سب سے افضل روزے رکھے کرو جو داود علیہ السلام کے روزے ہیں، ایک دن روزہ اور ایک دن افطار۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2391]
تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري

حدیث نمبر: 2392
أَخْبَرَنَا أَبُو حَصِينٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ , قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْثَرٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: زَوَّجَنِي أَبِي امْرَأَةً، فَجَاءَ يَزُورُهَا , فَقَالَ: كَيْفَ تَرَيْنَ بَعْلَكِ؟ فَقَالَتْ: نِعْمَ الرَّجُلُ مِنْ رَجُلٍ لَا يَنَامُ اللَّيْلَ، وَلَا يُفْطِرُ النَّهَارَ، فَوَقَعَ بِي وَقَالَ: زَوَّجْتُكَ امْرَأَةً مِنَ الْمُسْلِمِينَ فَعَضَلْتَهَا , قَالَ: فَجَعَلْتُ لَا أَلْتَفِتُ إِلَى قَوْلِهِ مِمَّا أَرَى عِنْدِي مِنَ الْقُوَّةِ وَالِاجْتِهَادِ، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" لَكِنِّي أَنَا أَقُومُ وَأَنَامُ وَأَصُومُ وَأُفْطِرُ، فَقُمْ وَنَمْ وَصُمْ وَأَفْطِرْ"، قَالَ:" صُمْ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ"، فَقُلْتُ: أَنَا أَقْوَى مِنْ ذَلِكَ , قَالَ:" صُمْ صَوْمَ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام صُمْ يَوْمًا وَأَفْطِرْ يَوْمًا" قُلْتُ: أَنَا أَقْوَى مِنْ ذَلِكَ قَالَ:" اقْرَأِ الْقُرْآنَ فِي كُلِّ شَهْرٍ، ثُمَّ انْتَهَى إِلَى خَمْسَ عَشْرَةَ، وَأَنَا أَقُولُ أَنَا أَقْوَى مِنْ ذَلِكَ".
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میرے والد نے میری شادی ایک عورت سے کر دی، وہ اس سے ملاقات کے لیے آئے، تو اس سے پوچھا: تم نے اپنے شوہر کو کیسا پایا؟ اس نے کہا: کیا ہی بہترین آدمی ہیں نہ رات میں سوتے ہیں اور نہ دن میں کھاتے پیتے ہیں، ۱؎ تو انہوں نے مجھے سخت سست کہا اور بولے: میں نے تیری شادی ایک مسلمان لڑکی سے کی ہے، اور تو اسے چھوڑے رکھے ہے۔ میں نے ان کی بات پر دھیان نہیں دیا اس لیے کہ میں اپنے اندر قوت اور (نیکیوں میں) آگے بڑھنے کی صلاحیت پاتا تھا، یہ بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ نے فرمایا: میں رات میں قیام بھی کرتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، روزہ بھی رکھتا ہوں اور کھاتا پیتا بھی ہوں، تو تم بھی قیام کرو اور سوؤ بھی۔ اور روزہ رکھو اور افطار بھی کرو، ہر مہینے میں تین دن روزہ رکھا کرو میں نے کہا: میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں، آپ نے فرمایا: تو پھر تم «صیام داودی» رکھا کرو، ایک دن روزہ رکھو اور ایک دن کھاؤ پیو، میں نے عرض کیا: میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں، آپ نے فرمایا: ہر مہینہ ایک مرتبہ قرآن پڑھا کرو، پھر آپ (کم کرتے کرتے) پندرہ دن پر آ کر ٹھہر گئے، اور میں کہتا ہی رہا کہ میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2392]
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 2390 (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یعنی رات میں قیام کرتے ہیں اور دن میں روزے سے رہتے ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد

قال الشيخ زبير على زئي: حسن

حدیث نمبر: 2393
أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ دُرُسْتَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، أَنَّ أَبَا سَلَمَةَ حَدَّثَهُ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ، قَالَ: دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُجْرَتِي , فَقَالَ:" أَلَمْ أُخْبَرْ أَنَّكَ تَقُومُ اللَّيْلَ وَتَصُومُ النَّهَارَ" قَالَ: بَلَى، قَالَ:" فَلَا تَفْعَلَنَّ نَمْ وَقُمْ وَصُمْ وَأَفْطِرْ، فَإِنَّ لِعَيْنِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَإِنَّ لِجَسَدِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَإِنَّ لِزَوْجَتِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَإِنَّ لِضَيْفِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَإِنَّ لِصَدِيقِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَإِنَّهُ عَسَى أَنْ يَطُولَ بِكَ عُمُرٌ، وَإِنَّهُ حَسْبُكَ أَنْ تَصُومَ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ثَلَاثًا، فَذَلِكَ صِيَامُ الدَّهْرِ كُلِّهِ وَالْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا" , قُلْتُ: إِنِّي أَجِدُ قُوَّةً فَشَدَّدْتُ فَشُدِّدَ عَلَيَّ , قَالَ:" صُمْ مِنْ كُلِّ جُمُعَةٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ" , قُلْتُ: إِنِّي أُطِيقُ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ فَشَدَّدْتُ فَشُدِّدَ عَلَيَّ قَالَ:" صُمْ صَوْمَ نَبِيِّ اللَّهِ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام" , قُلْتُ: وَمَا كَانَ صَوْمُ دَاوُدَ؟ قَالَ:" نِصْفُ الدَّهْرِ".
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے حجرے میں داخل ہوئے اور فرمایا: کیا مجھے یہ خبر نہیں ملی ہے کہ تم رات میں قیام کرتے ہو اور دن میں روزہ رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں، ہاں ایسا ہی ہے۔ آپ نے فرمایا: تم ایسا ہرگز نہ کرو، سوؤ بھی اور قیام بھی کرو، روزہ سے بھی رہو اور کھاؤ پیو بھی، کیونکہ تمہاری آنکھ کا تم پر حق ہے، اور تمہارے بدن کا تم پر حق ہے، تمہاری بیوی کا تم پر حق ہے، تمہارے مہمان کا تم پر حق ہے، اور تمہارے دوست کا تم پر حق ہے، توقع ہے کہ تمہاری عمر لمبی ہو، تمہارے لیے بس اتنا کافی ہے کہ ہر مہینے میں تین دن روزہ رکھا کرو، یہی صیام الدھر ہو گا کیونکہ نیکی کا ثواب دس گنا ہوتا ہے، میں نے عرض کیا: میں اپنے اندر طاقت پاتا ہوں، تو میں نے سختی چاہی تو مجھ پر سختی کر دی گئی، آپ نے فرمایا: ہر ہفتے تین دن روزہ رکھا کرو، میں نے عرض کیا: میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں، تو میں نے سختی چاہی تو مجھ پر سختی کر دی گئی، آپ نے فرمایا: تم اللہ کے نبی داود علیہ السلام کے روزے رکھو، میں نے کہا: داود علیہ السلام کا روزہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ایک دن روزہ ایک دن افطار۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2393]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصوم 54 (1974) مختصراً، 55 (1975)، الأدب 84 (6134)، النکاح 89 (5199)، صحیح مسلم/الصوم 35 (1159)، (تحفة الأشراف: 8960)، مسند احمد 2/188، 198، 200 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

حدیث نمبر: 2394
أَخْبَرَنَا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، وَأَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ , قَالَ: ذُكِرَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ يَقُولُ: لَأَقُومَنَّ اللَّيْلَ، وَلَأَصُومَنَّ النَّهَارَ مَا عِشْتُ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنْتَ الَّذِي تَقُولُ ذَلِكَ" , فَقُلْتُ لَهُ: قَدْ قُلْتُهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ! فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَإِنَّكَ لَا تَسْتَطِيعُ ذَلِكَ فَصُمْ وَأَفْطِرْ، وَنَمْ وَقُمْ، وَصُمْ مِنَ الشَّهْرِ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، فَإِنَّ الْحَسَنَةَ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا، وَذَلِكَ مِثْلُ صِيَامِ الدَّهْرِ" , قُلْتُ: فَإِنِّي أُطِيقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ , قَالَ:" صُمْ يَوْمًا وَأَفْطِرْ يَوْمَيْنِ" , فَقُلْتُ: إِنِّي أُطِيقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ! قَالَ:" فَصُمْ يَوْمًا وَأَفْطِرْ يَوْمًا، وَذَلِكَ صِيَامُ دَاوُدَ وَهُوَ أَعْدَلُ الصِّيَامِ" , قُلْتُ: فَإِنِّي أُطِيقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ , قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ" , قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو: لَأَنْ أَكُونَ قَبِلْتُ الثَّلَاثَةَ الْأَيَّامَ الَّتِي قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَهْلِي وَمَالِي.
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا گیا کہ میں کہتا ہوں کہ میں جب تک زندہ رہوں گا ہمیشہ رات کو قیام کروں گا، اور دن کو روزہ رکھا کروں گا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تم ایسا کہتے ہو؟ میں نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! جی ہاں میں نے یہ بات کہی ہے، آپ نے فرمایا: تم ایسا نہیں کر سکتے، تم روزہ بھی رکھو اور افطار بھی کرو، سوؤ بھی اور قیام بھی کرو، اور مہینے میں تین دن روزہ رکھو کیونکہ نیکی کا ثواب دس گنا ہوتا ہے، اور یہ صیام الدھر (پورے سال کے روزوں) کے مثل ہے، میں نے عرض کیا: میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں، آپ نے فرمایا: ایک دن روزہ رکھو اور دو دن افطار کرو، پھر میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں، آپ نے فرمایا: اچھا ایک دن روزہ رکھو اور ایک دن افطار کرو، یہ داود علیہ السلام کا روزہ ہے، یہ بہت مناسب روزہ ہے، میں نے کہا: میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں، آپ نے فرمایا: اس سے بہتر کچھ نہیں۔ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: اگر میں نے مہینے میں تین دن روزہ رکھنے کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات قبول کر لی ہوتی تو یہ میرے اہل و عیال اور میرے مال سے میرے لیے زیادہ پسندیدہ ہوتی۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2394]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصوم 56 (1976)، الأنبیاء 38 (3418)، صحیح مسلم/الصوم 35 (1159)، سنن ابی داود/الصوم 53 (2427)، (تحفة الأشراف: 8645) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

حدیث نمبر: 2395
أَخْبَرَنِي أَحْمَدُ بْنُ بَكَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ وَهُوَ ابْنُ سَلَمَةَ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو , قُلْتُ: أَيْ عَمِّ حَدِّثْنِي عَمَّا , قَالَ لَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: يَا ابْنَ أَخِي إِنِّي قَدْ كُنْتُ أَجْمَعْتُ عَلَى أَنْ أَجْتَهِدَ اجْتِهَادًا شَدِيدًا، حَتَّى قُلْتُ لَأَصُومَنَّ الدَّهْرَ، وَلَأَقْرَأَنَّ الْقُرْآنَ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، فَسَمِعَ بِذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَانِي، حَتَّى دَخَلَ عَلَيَّ فِي دَارِي , فَقَالَ:" بَلَغَنِي أَنَّكَ قُلْتَ لَأَصُومَنَّ الدَّهْرَ، وَلَأَقْرَأَنَّ الْقُرْآنَ" , فَقُلْتُ: قَدْ قُلْتُ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ:" فَلَا تَفْعَلْ صُمْ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ" , قُلْتُ: إِنِّي أَقْوَى عَلَى أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ قَالَ:" فَصُمْ مِنَ الْجُمُعَةِ يَوْمَيْنِ الِاثْنَيْنِ وَالْخَمِيسَ" , قُلْتُ: فَإِنِّي أَقْوَى عَلَى أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكِ , قَالَ:" فَصُمْ صِيَامَ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام، فَإِنَّهُ أَعْدَلُ الصِّيَامِ عِنْدَ اللَّهِ يَوْمًا صَائِمًا وَيَوْمًا مُفْطِرًا، وَإِنَّهُ كَانَ إِذَا وَعَدَ لَمْ يُخْلِفْ، وَإِذَا لَاقَى لَمْ يَفِرَّ".
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے پاس آیا۔ میں نے عرض کیا: چچا جان! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے جو کہا تھا اسے مجھ سے بیان کیجئے۔ انہوں نے کہا: بھتیجے! میں نے پختہ عزم کر لیا تھا کہ میں اللہ کی عبادت کے لیے بھرپور کوشش کروں گا یہاں تک کہ میں نے کہہ دیا کہ میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا، اور ہر روز دن و رات قرآن پڑھا کروں گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سنا تو میرے پاس تشریف لائے یہاں تک کہ گھر کے اندر میرے پاس آئے، پھر آپ نے فرمایا: مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ تم نے کہا ہے کہ میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا اور قرآن پڑھوں گا؟ میں نے عرض کیا: ہاں اللہ کے رسول! میں نے ایسا کہا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا مت کرو (بلکہ) ہر مہینے تین دن روزہ رکھ لیا کرو، میں نے عرض کیا: میں اس سے زیادہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہوں، آپ نے فرمایا: ہر ہفتہ سے دو دن دوشنبہ (پیر) اور جمعرات کو روزہ رکھ لیا کرو، میں نے عرض کیا: میں اس سے بھی زیادہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہوں، آپ نے فرمایا: داود علیہ السلام کا روزہ رکھا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ سب سے زیادہ بہتر اور مناسب روزہ ہے، وہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کرتے، اور وہ جب وعدہ کر لیتے تو وعدہ خلافی نہیں کرتے تھے، اور جب دشمن سے مڈبھیڑ ہوتی تھی تو بھاگتے نہیں تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2395]
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 2393 (منکر) (جمعرات اور سوموار کا تذکرہ منکر ہے، باقی حصے صحیح ہیں)»

قال الشيخ الألباني: منكر بزيادة الموعد

قال الشيخ زبير على زئي: حسن