عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ کے اندر داخل ہوئے، آپ کے نکلنے کا وقت نزدیک آیا تو میرے دل میں کچھ خیال آیا تو میں چلا اور جلدی سے آیا، تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نکلتے ہوئے پایا۔ میں نے بلال رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ میں نماز پڑھی ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، دو رکعتیں، دونوں ستونوں کے درمیان۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2910]
مجاہد کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس ان کے گھر آ کر ان سے کہا گیا کہ (دیکھئیے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ابھی ابھی) کعبہ کے اندر گئے ہیں۔ (ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں) تو میں آیا وہاں پہنچ کر دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکل چکے ہیں، اور بلال رضی اللہ عنہ دروازے پر کھڑے ہیں۔ میں نے پوچھا: بلال! کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کے اندر نماز پڑھی ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، میں نے پوچھا: کہاں؟ انہوں نے کہا: ان دونوں ستونوں کے درمیان دو رکعتیں آپ نے پڑھیں۔ پھر آپ وہاں سے نکلے، اور کعبہ رخ ہو کر دو رکعتیں پڑھیں۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2911]
اسامہ بن زید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ میں داخل ہوئے، تو اس کے کناروں میں آپ نے تسبیح پڑھی اور تکبیر کہی اور نماز نہیں پڑھی ۱؎، پھر آپ باہر نکلے، اور مقام ابراہیم کے پیچھے آپ نے دو رکعتیں پڑھیں، پھر فرمایا: ”یہ قبلہ ہے“۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2912]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 110)، مسند احمد (5/209، 210) (منکر) (اسامہ کی اس روایت میں صرف ”خلف المقام‘‘ کا ذکر منکر ہے (جو کسی کے نزدیک نہیں ہے) باقی باتیں سنداً صحیح ہیں)»
وضاحت: ۱؎: اسامہ کی یہ نفی ان کے اپنے علم کی بنیاد پر ہے، وہ کسی کام میں مشغول رہے ہوں گے جس کی وجہ سے انہیں آپ کے نماز پڑھنے کا علم نہیں ہو سکا ہو گا۔
قال الشيخ الألباني: منكر بذكر المقام
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، عبدالمجيد بن عبدالعزيز بن أبى رواد: ضعفه الجمهور (الفتح المبين: 82/ 3 ص 101) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 343