عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عقبہ کی صبح مجھ سے فرمایا: اور آپ اپنی سواری پر تھے کہ ”میرے لیے کنکریاں چن دو“۔ تو میں نے آپ کے لیے کنکریاں چنیں جو چھوٹی چھوٹی تھیں کہ چٹکی میں آ سکتی تھیں جب میں نے آپ کے ہاتھ میں انہیں رکھا تو آپ نے فرمایا: ”ایسی ہی ہونی چاہیئے، اور تم اپنے آپ کو دین میں غلو سے بچاؤ۔ کیونکہ تم سے پہلے لوگوں کو ان کے دین میں غلو ہی نے ہلاک کر دیا ہے۔“[سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 3059]
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الحج 63 (3029)، (تحفة الأشراف: 5427)، مسند احمد (1/215)، ویأتی عند المؤلف برقم 3061 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ترمزی اور امام احمد دونوں نے یہاں ”ابن عباس“ سے ”عبداللہ بن عباس“ سمجھا ہے، حالانکہ ”عبداللہ“ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رات ہی میں عورتوں بچوں کے ساتھ منی روانہ کر دیا تھا، اور مزدلفہ سے منی تک سواری پر آپ کے پیچھے ”فضل بن عباس“ ہی سوار تھے، یہ دونوں باتیں صحیح مسلم کتاب الحج باب ۴۵ اور ۴۹ میں اور سنن کبریٰ بیہقی (۵/۱۲۷) میں صراحت کے ساتھ مذکور ہیں۔