الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن نسائي کل احادیث (5761)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن نسائي
كتاب عشرة النساء
کتاب: عورتوں کے ساتھ معاشرت (یعنی مل جل کر زندگی گزارنے) کے احکام و مسائل
4. بَابُ: الْغَيْرَةِ
4. باب: غیرت کا بیان۔
حدیث نمبر: 3407
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَنَسٌ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ إِحْدَى أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ، فَأَرْسَلَتْ أُخْرَى بِقَصْعَةٍ فِيهَا طَعَامٌ، فَضَرَبَتْ يَدَ الرَّسُولِ، فَسَقَطَتِ الْقَصْعَةُ، فَانْكَسَرَتْ , فَأَخَذَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْكِسْرَتَيْنِ، فَضَمَّ إِحْدَاهُمَا إِلَى الْأُخْرَى، فَجَعَلَ يَجْمَعُ فِيهَا الطَّعَامَ , وَيَقُولُ:" غَارَتْ أُمُّكُمْ كُلُوا". فَأَكَلُوا، فَأَمْسَكَ حَتَّى جَاءَتْ بِقَصْعَتِهَا الَّتِي فِي بَيْتِهَا , فَدَفَعَ الْقَصْعَةَ الصَّحِيحَةَ إِلَى الرَّسُولِ وَتَرَكَ الْمَكْسُورَةَ فِي بَيْتِ الَّتِي كَسَرَتْهَا.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم امہات المؤمنین میں سے ایک کے پاس تھے، آپ کی کسی دوسری بیوی نے ایک پیالہ کھانا بھیجا، پہلی بیوی نے (غصہ سے کھانا لانے والے) کے ہاتھ پر مارا اور پیالہ گر کر ٹوٹ گیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے برتن کے دونوں ٹکڑوں کو اٹھا کر ایک کو دوسرے سے جوڑا اور اس میں کھانا اکٹھا کرنے لگے اور فرماتے جاتے تھے: تمہاری ماں کو غیرت آ گئی ہے (کہ میرے گھر اس نے کھانا کیوں بھیجا)، تم لوگ کھانا کھاؤ۔ لوگوں نے کھایا، پھر قاصد کو آپ نے روکے رکھا یہاں تک کہ جن کے گھر میں آپ تھے اپنا پیالہ لائیں تو آپ نے یہ صحیح سالم پیالہ قاصد کو عنایت کر دیا ۱؎ اور ٹوٹا ہوا پیالہ اس بیوی کے گھر میں رکھ چھوڑا جس نے اسے توڑا تھا۔ [سنن نسائي/كتاب عشرة النساء/حدیث: 3407]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/البیوع 91 (3567)، سنن ابن ماجہ/الأحکام 14 (2334) وقد أخرجہ: صحیح البخاری/المظالم 34 (2481)، النکاح 107 (5225)، سنن الترمذی/الأحکام 23 (1359)، (تحفة الأشراف: 633)، مسند احمد (3/105، 263) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں پیالے آپ کی ذاتی ملکیت تھے، ورنہ کسی ضائع اور برباد چیز کا بدلہ اسی کے مثل قیمت ہوا کرتا ہے، یا یہ کہا جا سکتا ہے کہ دونوں پیالے قیمت میں برابر رہے ہوں گے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

حدیث نمبر: 3408
أَخْبَرَنَا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَسَدُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ:" أَنَّهَا يَعْنِي أَتَتْ بِطَعَامٍ فِي صَحْفَةٍ لَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ، فَجَاءَتْ عَائِشَةُ مُتَّزِرَةً بِكِسَاءٍ , وَمَعَهَا فِهْرٌ , فَفَلَقَتْ بِهِ الصَّحْفَةَ , فَجَمَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ فِلْقَتَيِ الصَّحْفَةِ , وَيَقُولُ:" كُلُوا , غَارَتْ أُمُّكُمْ" , مَرَّتَيْنِ. ثُمَّ أَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَحْفَةَ عَائِشَةَ، فَبَعَثَ بِهَا إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ وَأَعْطَى صَحْفَةَ أُمِّ سَلَمَةَ عَائِشَةَ".
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ وہ ایک پیالے میں کھانا لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے پاس آئیں۔ اتنے میں عائشہ رضی اللہ عنہا ایک چادر پہنے ہوئے آئیں، ان کے پاس ایک پتھر تھا، جس سے انہوں نے وہ پیالا مار کر دو ٹکرے کر دیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پیالے کے دونوں ٹکڑے جوڑنے لگے اور کہہ رہے تھے: تم لوگ کھاؤ، تمہاری ماں کو غیرت آ گئی، آپ نے دو بار کہا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا کا پیالا لیا اور وہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو بھجوا دیا اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا پیالا عائشہ رضی اللہ عنہا کو دے دیا۔ [سنن نسائي/كتاب عشرة النساء/حدیث: 3408]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 18247) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

حدیث نمبر: 3409
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ فُلَيْتٍ، عَنْ جَسْرَةَ بِنْتِ دَجَاجَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ صَانِعَةَ طَعَامٍ مِثْلَ صَفِيَّةَ أَهْدَتْ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَاءً فِيهِ طَعَامٌ، فَمَا مَلَكْتُ نَفْسِي أَنْ كَسَرْتُهُ، فَسَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ كَفَّارَتِهِ، فَقَالَ:" إِنَاءٌ كَإِنَاءٍ وَطَعَامٌ كَطَعَامٍ".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے ام المؤمنین صفیہ رضی اللہ عنہا کے جیسی کھانا بنانے والی کوئی عورت نہیں دیکھی، انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک برتن بھیجا جس میں کھانا تھا، میں اپنے کو قابو میں نہ رکھ سکی اور میں نے برتن توڑ دیا پھر میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے کفارے کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: برتن کے جیسا برتن اور کھانے کے جیسا کھانا۔ [سنن نسائي/كتاب عشرة النساء/حدیث: 3409]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/البیوع 91 (3568)، مسند احمد 6/148، 277 (ضعیف)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

حدیث نمبر: 3410
أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، أَنَّهُ سَمِعَ عُبَيْدَ بْنَ عُمَيْرٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ تَزْعُمُ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَمْكُثُ عِنْدَ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ فَيَشْرَبُ عِنْدَهَا عَسَلًا، فَتَوَاصَيْتُ أَنَا وَحَفْصَةُ , أَنَّ أَيَّتُنَا دَخَلَ عَلَيْهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَلْتَقُلْ: إِنِّي أَجِدُ مِنْكَ رِيحَ مَغَافِيرَ , أَكَلْتَ مَغَافِيرَ؟ فَدَخَلَ عَلَى إِحْدَاهُمَا , فَقَالَتْ ذَلِكَ لَهُ , فَقَالَ:" لَا , بَلْ شَرِبْتُ عَسَلًا عِنْدَ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ , وَلَنْ أَعُودَ لَهُ" , فَنَزَلَتْ: يَأَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ سورة التحريم آية 1 , إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ سورة التحريم آية 4 لِعَائِشَةَ , وَحَفْصَةَ , وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَى بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا سورة التحريم آية 3 لِقَوْلِهِ:" بَلْ شَرِبْتُ عَسَلًا".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام المؤمنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے پاس ٹھہرے ہوئے تھے اور ان کے ہاں شہد پی رہے تھے، میں نے اور حفصہ رضی اللہ عنہا نے باہم مشورہ کیا کہ ہم میں سے جس کے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آئیں تو وہ کہے: مجھے آپ سے مغافیر ۱؎ کی بو آ رہی ہے، آپ نے مغافیر کھایا ہے۔ آپ ان میں سے ایک کے پاس گئے تو اس نے یہی کہا، آپ نے فرمایا: نہیں، میں نے تو زینب بنت جحش کے پاس شہد پیا ہے اور اب آئندہ نہیں پیوں گا۔ تو عائشہ اور حفصہ (رضی اللہ عنہما) کی وجہ سے یہ آیت «يا أيها النبي لم تحرم ما أحل اللہ لك» اے نبی! جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے حلال کر دیا ہے اسے آپ کیوں حرام کرتے ہیں۔ (التحریم: ۱) اور «إن تتوبا إلى اللہ» (اے نبی کی دونوں بیویو!) اگر تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کر لو (تو بہت بہتر ہے)۔ (التحریم: ۴) نازل ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول: میں نے تو شہد پیا ہے کی وجہ سے یہ آیت: «وإذ أسر النبي إلى بعض أزواجه حديثا» اور یاد کر جب نبی نے اپنی بعض عورتوں سے ایک پوشیدہ بات کہی (التحریم: ۳) نازل ہوئی ہے۔ [سنن نسائي/كتاب عشرة النساء/حدیث: 3410]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تفسیر سورة التحریم 1 (4912) مختصراً، الطلاق 8 (5267)، والأیمان والنذور 25 (6691)، الحیل 12 (6972)، صحیح مسلم/الطلاق 3 (1474)، سنن ابی داود/الأشربة 11 (3714)، (تحفة الأشراف: 16322)، مسند احمد (6/221)، ویأتي عند المؤلف في الطلاق 17 (برقم: 3450) وفي الأیمان والنذور 20 برقم: 3826 (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: ایک قسم کا گوند ہے جو بعض درختوں سے نکلتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

حدیث نمبر: 3411
أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ يُونُسَ بْنِ مُحَمَّدٍ حَرَمِيٌّ هُوَ لَقَبُهُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ:" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَتْ لَهُ أَمَةٌ يَطَؤُهَا , فَلَمْ تَزَلْ بِهِ عَائِشَةُ , وَحَفْصَةُ حَتَّى حَرَّمَهَا عَلَى نَفْسِهِ , فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: يَأَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ سورة التحريم آية 1 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ".
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک لونڈی تھی، آپ اس سے مجامعت فرماتے تھے۔ عائشہ اور حفصہ رضی اللہ عنہا ایک دن آپ کے پاس بیٹھی رہیں یہاں تک کہ آپ نے اسے اپنے اوپر حرام کر لی، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت: «يا أيها النبي لم تحرم ما أحل اللہ لك» إِلَى آخِرِ الآيَةِ اے نبی! آپ اس چیز کو اپنے لیے کیوں حرام قرار دے رہے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے حلال رکھا ہے۔ (التحریم: ۱) مکمل آیت نازل فرمائی ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب عشرة النساء/حدیث: 3411]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 382) (صحیح الإسناد)»

وضاحت: ۱؎: اس سے پہلے والی حدیث میں ہے کہ اس آیت کے نزول کا سبب یہ ہے کہ آپ نے اپنے اوپر شہد کو حرام کر لیا تھا۔ اس سلسلہ میں حافظ ابن حجر کا کہنا ہے کہ ممکن ہے یہ دونوں واقعے آیت کے نزول کا سبب بنے ہوں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

حدیث نمبر: 3412
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَحْيَى هُوَ ابْنُ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيُّ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الْوَلِيدِ بْنِ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، أَنَّ عَائِشَةَ، قَالَتْ: الْتَمَسْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَدْخَلْتُ يَدِي فِي شَعْرِهِ، فَقَالَ:" قَدْ جَاءَكِ شَيْطَانُكِ". فَقُلْتُ: أَمَا لَكَ شَيْطَانٌ؟ فَقَالَ:" بَلَى، وَلَكِنَّ اللَّهَ أَعَانَنِي عَلَيْهِ , فَأَسْلَمَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تفتیش کر رہی تھی چنانچہ میں نے اپنا ہاتھ آپ کے بالوں میں داخل کیا تو آپ نے فرمایا: تمہارے پاس تمہارا شیطان آ گیا ہے۔ میں نے عرض کیا: کیا آپ کا شیطان نہیں ہے؟ آپ نے فرمایا: کیوں نہیں، اللہ کی قسم، لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے اس سے محفوظ رکھا ہے لہٰذا میں اس سے محفوظ رہتا ہوں۔ [سنن نسائي/كتاب عشرة النساء/حدیث: 3412]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 16184) (صحیح الإسناد)»

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

حدیث نمبر: 3413
أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَسَنِ الْمِقْسَمِيُّ، عَنْ حَجَّاجٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: فَقَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ، فَظَنَنْتُ أَنَّهُ ذَهَبَ إِلَى بَعْضِ نِسَائِهِ، فَتَجَسَّسْتُهُ، فَإِذَا هُوَ رَاكِعٌ , أَوْ سَاجِدٌ يَقُولُ:" سُبْحَانَكَ , وَبِحَمْدِكَ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ". فَقُلْتُ: بِأَبِي , وَأُمِّي إِنَّكَ لَفِي شَأْنٍ، وَإِنِّي لَفِي شَأْنٍ آخَرَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ایک رات میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غائب پایا، مجھے گمان ہوا کہ آپ کسی بیوی کے پاس گئے ہوں گے۔ میں آپ کو تلاش کرنے لگی، دیکھا کہ آپ رکوع یا سجدہ میں ہیں اور کہہ رہے ہیں: «سبحانك و بحمدك لا إله إلا أنت» پاک ہے تیری ذات، تیری ہی تعریف ہے اور تیرے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں۔ میں نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ کچھ کر رہے ہیں اور میں کچھ اور ہی گمان کر رہی تھی۔ [سنن نسائي/كتاب عشرة النساء/حدیث: 3413]
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 1132 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن

حدیث نمبر: 3414
أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، أَنَّ عَائِشَةَ , قَالَتْ: افْتَقَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ , فَظَنَنْتُ أَنَّهُ ذَهَبَ إِلَى بَعْضِ نِسَائِهِ , فَتَجَسَّسْتُ، ثُمَّ رَجَعْتُ، فَإِذَا هُوَ رَاكِعٌ , أَوْ سَاجِدٌ يَقُولُ:" سُبْحَانَكَ , وَبِحَمْدِكَ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ". فَقُلْتُ: بِأَبِي وَأُمِّي , إِنَّكَ لَفِي شَأْنٍ، وَإِنِّي لَفِي آخَرَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ایک رات میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غائب پایا، مجھے گمان ہوا کہ آپ اپنی کسی بیوی کے پاس گئے ہوں گے، میں آپ کو تلاش کرنے لگی پھر میں لوٹی تو دیکھا کہ آپ رکوع یا سجدے میں ہیں، آپ کہہ رہے ہیں: «سبحانك و بحمدك لا إله إلا أنت» میں نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ کچھ کر رہے ہیں اور میں کچھ اور ہی گمان کر رہی تھی۔ [سنن نسائي/كتاب عشرة النساء/حدیث: 3414]
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 169، 1131، 1132 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن

حدیث نمبر: 3415
أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَثِيرٍ، أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ قَيْسٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ، تَقُولُ: أَلَا أُحَدِّثُكُمْ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَنِّي؟ قُلْنَا: بَلَى، قَالَتْ: لَمَّا كَانَتْ لَيْلَتِي انْقَلَبَ فَوَضَعَ نَعْلَيْهِ عِنْدَ رِجْلَيْهِ، وَوَضَعَ رِدَاءَهُ وَبَسَطَ إِزَارَهُ عَلَى فِرَاشِهِ، وَلَمْ يَلْبَثْ إِلَّا رَيْثَمَا ظَنَّ أَنِّي قَدْ رَقَدْتُ، ثُمَّ انْتَعَلَ رُوَيْدًا وَأَخَذَ رِدَاءَهُ رُوَيْدًا، ثُمَّ فَتَحَ الْبَابَ رُوَيْدًا وَخَرَجَ وَأَجَافَهُ رُوَيْدًا، وَجَعَلْتُ دِرْعِي فِي رَأْسِي , فَاخْتَمَرْتُ وَتَقَنَّعْتُ إِزَارِي , وَانْطَلَقْتُ فِي إِثْرِهِ حَتَّى جَاءَ الْبَقِيعَ، فَرَفَعَ يَدَيْهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ , وَأَطَالَ الْقِيَامَ، ثُمَّ انْحَرَفَ وَانْحَرَفْتُ، فَأَسْرَعَ فَأَسْرَعْتُ، فَهَرْوَلَ فَهَرْوَلْتُ، فَأَحْضَرَ فَأَحْضَرْتُ، وَسَبَقْتُهُ فَدَخَلْتُ وَلَيْسَ إِلَّا أَنِ اضْطَجَعْتُ فَدَخَلَ، فَقَالَ:" مَا لَكِ يَا عَائِشُ رَابِيَةً؟ قَالَ سُلَيْمَانُ: حَسِبْتُهُ قَالَ: حَشْيَا، قَالَ:" لَتُخْبِرِنِّي , أَوْ لَيُخْبِرَنِّي اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ". قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي , فَأَخْبَرْتُهُ الْخَبَرَ. قَالَ:" أَنْتِ السَّوَادُ الَّذِي رَأَيْتُ أَمَامِي". قُلْتُ: نَعَمْ. قَالَتْ: فَلَهَدَنِي لَهْدَةً فِي صَدْرِي أَوْجَعَتْنِي، قَالَ:" أَظَنَنْتِ أَنْ يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْكِ وَرَسُولُهُ". قَالَتْ: مَهْمَا يَكْتُمُ النَّاسُ فَقَدْ عَلِمَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ. قَالَ:" نَعَمْ"، قَالَ:" فَإِنَّ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام أَتَانِي حِينَ رَأَيْتِ , وَلَمْ يَكُنْ يَدْخُلُ عَلَيْكِ وَقَدْ وَضَعْتِ ثِيَابَكِ , فَنَادَانِي فَأَخْفَى مِنْكِ فَأَجَبْتُهُ وَأَخْفَيْتُهُ مِنْكِ، وَظَنَنْتُ أَنَّكِ قَدْ رَقَدْتِ , فَكَرِهْتُ أَنْ أُوقِظَكِ وَخَشِيتُ أَنْ تَسْتَوْحِشِي، فَأَمَرَنِي أَنْ آتِيَ أَهْلَ الْبَقِيعِ فَأَسْتَغْفِرَ لَهُمْ". خَالَفَهُ حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، فَقَالَ: عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ قَيْسٍ.
محمد بن قیس سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو کہتے ہوئے سنا کہ کیا میں تم سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اور اپنا ایک واقعہ نہ بیان کروں؟ ہم نے عرض کیا: کیوں نہیں؟ وہ بولیں: جس رات میری باری تھی، آپ عشاء سے لوٹے اور جوتے اپنے پیروں کے پاس رکھ لیے، اپنی چادر رکھی اور بستر پر اپنا تہبند بچھایا، ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی، جب آپ کو اندازہ ہوا کہ میں سو چکی ہوں، تو آپ نے آہستہ سے جوتے پہنے اور آہستہ سے چادر لی پھر دھیرے سے دروازہ کھولا اور باہر نکل کر دھیرے سے بند کر دیا۔ میں نے بھی اوڑھنی اپنے سر پر ڈالی، چادر اوڑھی اور پھر تہبند پہن کر آپ کے پیچھے پیچھے چل پڑی، یہاں تک کہ آپ مقبرہ بقیع آئے، تو آپ نے اپنے ہاتھ تین بار اٹھائے، قیام کو طویل کیا پھر پلٹے تو میں بھی پلٹی، اور تیزی سے چلے، میں بھی تیزی سے چلی، پھر آپ نے رفتار کچھ اور تیز کر دی تو میں نے بھی تیز کر دی پھر آپ دوڑنے لگے تو میں بھی دوڑنے لگی، میں آپ سے آگے نکل گئی اور اندر داخل ہو گئی اور اب میں لیٹی ہی تھی کہ آپ اندر آ گئے اور فرمایا: کیا بات ہے عائشہ! سانس کیوں پھولی ہے؟ (سلیمان بن داود نے کہا: میرا خیال ہے کہ میرے شیخ نے یوں فرمایا: «حشیا»، یعنی) تمہاری سانسیں کیوں پھول رہی ہیں؟ آپ نے فرمایا: بتاؤ ورنہ مجھے لطیف و خبیر یعنی اللہ بتا دے گا۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، پھر انہوں نے آپ کو پورا واقعہ بتایا، آپ نے فرمایا: تو تمہارا ہی سایہ تھا جو میں نے اپنے آگے دیکھا؟ میں نے کہا: ہاں، پھر آپ نے میرے سینے پر ایک ایسی تھپکی ماری کہ مجھے تکلیف ہوئی اور فرمایا: کیا تم سمجھتی ہو کہ اللہ اور اس کا رسول تم پر ظلم کرے گا؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: کوئی بات چاہے لوگوں سے کتنی ہی مخفی رہے، لیکن اللہ تعالیٰ تو اسے بخوبی جانتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، پھر فرمایا: جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آئے جب تم نے مجھے دیکھا، لیکن وہ اندر تمہارے سامنے نہیں آ سکتے تھے کہ تم اپنے کپڑے اتار چکی تھیں، انہوں نے مجھے پکارا اور تم سے چھپایا، میں نے انہیں جواب دیا اور میں نے اسے تم سے چھپایا (یعنی دھیرے سے کہا) اور میں سمجھا کہ تم سو چکی ہو، تو میں نے مناسب نہیں سمجھا کہ تمہیں جگاؤں۔ اور مجھے ڈر تھا کہ تم تنہائی میں وحشت نہ کھاؤ، تو انہوں (جبرائیل) نے مجھے حکم دیا کہ میں اہل بقیع کے پاس جاؤں اور ان کے لیے استغفار کروں۔ حجاج بن محمد نے سند اس کے برعکس یوں بیان کی «عن ابن جریج، عن ابن ابی ملیکۃ، عن محمد بن قیس» ۔ [سنن نسائي/كتاب عشرة النساء/حدیث: 3415]
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 2039 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن

حدیث نمبر: 3416
حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ مُسْلِمٍ الْمِصِّيصِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ تُحَدِّثُ، قَالَتْ: أَلَا أُحَدِّثُكُمْ عَنِّي , وَعَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قُلْنَا: بَلَى. قَالَتْ: لَمَّا كَانَتْ لَيْلَتِي الَّتِي هُوَ عِنْدِي , تَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , انْقَلَبَ فَوَضَعَ نَعْلَيْهِ عِنْدَ رِجْلَيْهِ , وَوَضَعَ رِدَاءَهُ، وَبَسَطَ طَرَفَ إِزَارِهِ عَلَى فِرَاشِهِ، فَلَمْ يَلْبَثْ إِلَّا رَيْثَمَا ظَنَّ أَنِّي قَدْ رَقَدْتُ، ثُمَّ انْتَعَلَ رُوَيْدًا , وَأَخَذَ رِدَاءَهُ رُوَيْدًا، ثُمَّ فَتَحَ الْبَابَ رُوَيْدًا , وَخَرَجَ وَأَجَافَهُ رُوَيْدًا، وَجَعَلْتُ دِرْعِي فِي رَأْسِي وَاخْتَمَرْتُ، وَتَقَنَّعْتُ إِزَارِي فَانْطَلَقْتُ فِي إِثْرِهِ حَتَّى جَاءَ الْبَقِيعَ، فَرَفَعَ يَدَيْهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، وَأَطَالَ الْقِيَامَ ثُمَّ انْحَرَفَ فَانْحَرَفْتُ، فَأَسْرَعَ فَأَسْرَعْتُ، فَهَرْوَلَ فَهَرْوَلْتُ، فَأَحْضَرَ فَأَحْضَرْتُ وَسَبَقْتُهُ، فَدَخَلْتُ فَلَيْسَ إِلَّا أَنِ اضْطَجَعْتُ فَدَخَلَ، فَقَالَ:" مَا لَكِ يَا عَائِشَةُ حَشْيَا رَابِيَةً؟". قَالَتْ: لَا. قَالَ:" لَتُخْبِرِنِّي , أَوْ لَيُخْبِرَنِّي اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ". قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي , فَأَخْبَرْتُهُ الْخَبَرَ، قَالَ:" فَأَنْتِ السَّوَادُ الَّذِي رَأَيْتُهُ أَمَامِي"، قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَتْ: فَلَهَدَنِي فِي صَدْرِي لَهْدَةً أَوْجَعَتْنِي، ثُمَّ قَالَ:" أَظَنَنْتِ أَنْ يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْكِ وَرَسُولُهُ". قَالَتْ: مَهْمَا يَكْتُمُ النَّاسُ فَقَدْ عَلِمَهُ اللَّهُ؟ قَالَ:" نَعَمْ"، قَالَ:" فَإِنَّ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام أَتَانِي حِينَ رَأَيْتِ، وَلَمْ يَكُنْ يَدْخُلُ عَلَيْكِ وَقَدْ وَضَعْتِ ثِيَابَكِ، فَنَادَانِي، فَأَخْفَى مِنْكِ , فَأَجَبْتُهُ فَأَخْفَيْتُ مِنْكِ، فَظَنَنْتُ أَنْ قَدْ رَقَدْتِ , وَخَشِيتُ أَنْ تَسْتَوْحِشِي , فَأَمَرَنِي أَنْ آتِيَ أَهْلَ الْبَقِيعِ فَأَسْتَغْفِرَ لَهُمْ". رَوَاهُ عَاصِمٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرٍ، عَنْ عَائِشَةَ عَلَى غَيْرِ هَذَا اللَّفْظِ.
محمد بن قیس بن مخرمہ کہتے ہیں کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو کہتے ہوئے سنا: کیا میں تم سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اور اپنا ایک واقعہ نہ بیان کروں؟ ہم نے عرض کیا: کیوں نہیں؟ وہ بولیں: جس رات میری باری تھی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے یہاں تھے، آپ عشاء سے لوٹے اور جوتے اپنے پیروں کے پاس رکھ لیے، اپنی چادر رکھی اور بستر پر تہبند بچھایا، ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی جب آپ کو اندازہ ہوا کہ میں سو چکی ہوں، آپ نے آہستہ سے جوتے پہنے اور آہستہ سے چادر لی پھر دھیرے سے دروازہ کھولا اور باہر نکل کر دھیرے سے بھیڑ دیا، میں نے بھی اوڑھنی اپنے سر پر ڈالی، چادر اوڑھی، پھر تہبند پہن کر آپ کے پیچھے پیچھے چل پڑی، یہاں تک کہ آپ مقبرہ بقیع آئے، تو آپ نے اپنے ہاتھ تین بار اٹھائے، قیام کو طویل کیا پھر پلٹے تو میں بھی پلٹی، اور تیزی سے چلے، میں بھی تیزی سے چلی، پھر آپ نے رفتار کچھ اور تیز کر دی تو میں نے بھی رفتار تیز کر دی پھر آپ دوڑنے لگے تو میں بھی دوڑنے لگی اور میں آپ سے آگے نکل گئی اور اندر داخل ہو گئی اور اب میں لیٹی ہی تھی کہ آپ اندر آ گئے اور فرمایا: کیا بات ہے عائشہ! پیٹ کیسا پھولا ہے، تمہاری سانسیں کیوں پھول رہی ہیں؟ بتاؤ ورنہ مجھے لطیف و خبیر یعنی اللہ تعالیٰ بتا دے گا۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، پھر انہوں نے آپ کو پورا واقعہ بتایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو تمہارا ہی سایہ تھا جو میں نے اپنے آگے دیکھا؟ میں نے کہا: ہاں، پھر آپ نے میرے سینے پر ایک ایسی تھپکی ماری کہ مجھے تکلیف ہوئی اور فرمایا: کیا تم سمجھتی ہو کہ اللہ اور اس کا رسول تم پر ظلم کرے گا؟ انہوں نے کہا: کوئی بات چاہے لوگوں سے کتنی ہی مخفی رہے، لیکن اللہ تعالیٰ تو اسے جان ہی لے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، (اور) کہا: جبرائیل میرے پاس آئے جب تم نے مجھے دیکھا، لیکن وہ اندر تمہارے سامنے نہیں آ سکتے تھے کہ تم اپنے کپڑے اتار چکی تھیں۔ انہوں نے مجھے پکارا اور تم سے چھپایا، میں نے انہیں جواب دیا اور میں نے اسے تم سے چھپایا (یعنی دھیرے سے کہا) اور میں سمجھا کہ تم سو چکی ہو، اور مجھے ڈر تھا کہ تم تنہائی میں وحشت نہ کھاؤ، تو انہوں (جبرائیل) نے مجھے حکم دیا کہ میں اہل بقیع کے پاس جاؤں اور ان کے لیے استغفار کروں۔ عاصم نے یہ حدیث دوسرے الفاظ کے ساتھ عبداللہ بن عامر سے اور انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے۔ [سنن نسائي/كتاب عشرة النساء/حدیث: 3416]
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 2039 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن

حدیث نمبر: 3417
أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا شَرِيكٌ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: فَقَدْتُهُ مِنَ اللَّيْلِ وَسَاقَ الْحَدِيثَ.
اس سند سے بھی عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے غائب پایا اور پھر پوری حدیث بیان کی۔ [سنن نسائي/كتاب عشرة النساء/حدیث: 3417]
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الجنائز 36 (1546) مختصراً، (تحفة الأشراف: 16226)، مسند احمد (6/71) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح