ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب تم کسی مزدور سے مزدوری کراؤ تو اسے اس کی اجرت بتا دو۔ [سنن نسائي/كتاب المزارعة/حدیث: 3888]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 3958)، مسند احمد (3/59، 68، 71)، مرفوعاً (ضعیف) (اس کے راوی ’’ابرہیم نخعی‘‘ کا ابو سعید خدری سے سماع نہیں ہے، یعنی سند میں انقطاع ہے لیکن اس اثر کا معنی صحیح ہے، آگے کے آثار دیکھیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف موقوف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، إبراهيم النخعي لم يسمع من أبى سعيد الخدري رضى الله عنه كما فى تحفة الأشراف (3/ 326) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 349
حماد بن ابی سلیمان سے روایت ہے کہ ان سے ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو کسی مزدور سے اس کے کھانے کے بدلے کام لے؟ تو انہوں نے کہا: نہیں (درست نہیں) یہاں تک کہ وہ اسے بتا دے۔ [سنن نسائي/كتاب المزارعة/حدیث: 3890]
حماد اور قتادہ سے روایت ہے کہ ان سے ایک ایسے شخص کے سلسلے میں پوچھا گیا، جس نے ایک آدمی سے کہا: میں تجھ سے مکے تک کے لیے اتنے اور اتنے میں کرائے پر (سواری) لیتا ہوں۔ اگر میں ایک مہینہ یا اس سے کچھ زیادہ - اور اس نے فاضل مسافت کی تعیین کر دی - چلا تو تیرے لیے اتنا اور اتنا زیادہ کرایہ ہو گا۔ تو اس (صورت) میں انہوں نے کوئی حرج نہیں سمجھا۔ لیکن اس (صورت) کو انہوں نے ناپسند کیا کہ وہ کہے کہ میں تم سے اتنے اور اتنے میں کرائے پر (سواری) لیتا ہوں، اب اگر مجھے ایک مہینہ سے زائد چلنا پڑا ۱؎، تو میں تمہارے کرائے میں سے اسی قدر اتنا اور اتنا کاٹ لوں گا ۲؎۔ [سنن نسائي/كتاب المزارعة/حدیث: 3891]
وضاحت: ۱؎: سواری کی سست رفتاری کے سبب ایسا کرنا پڑا تو ایسا کروں گا ۲؎: متعین مسافت (دوری) کو تیزی کی وجہ سے وقت سے پہلے طے کر لینے پر زیادہ اجرت بطور انعام و اکرام ہے اس لیے دونوں نے اس کو جائز قرار دیا ہے، اور دھیرے دھیرے چلنے کی وجہ سے کرائے میں کمی کرنا ظلم اور دوسرے کے حق کو چھیننے کے مشابہ ہے، یہی وجہ کہ دونوں نے اس دوسری صورت کو مکروہ جانا ہے۔
ابن جریج کہتے ہںي کہ میں نے عطا سے کہا: اگر میں ایک غلام کو ایک سال کھانے کے بدلے اور ایک سال تک اتنے اور اتنے مال کے بدلے نوکر رکھوں (تو کیا حکم ہے)؟ انہوں نے کہا: کوئی حرج نہیں، اور جب تم اسے اجرت (مزدوری) پر رکھو تو اس کے لیے تمہارا اس وقت اتنا کہنا کافی ہے کہ اتنے دنوں تک اجرت (مزدوری) پر رکھوں گا۔ (ابن جریج نے کہا) یا اگر میں نے اجرت (مزدوری) پر رکھا اور سال کے کچھ دن گزر گئے ہوں؟ عطاء نے کہا: تم گزرے ہوئے دن کو شمار نہیں کرو گے۔ [سنن نسائي/كتاب المزارعة/حدیث: 3892]