عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خوشحالی و تنگی، خوشی و غمی ہر حالت میں سمع و طاعت پر بیعت کی، نیز اس بات پر بیعت کی کہ ہم حکمرانوں سے حکومت کے لیے نہ جھگڑیں، اور جہاں بھی رہیں حق پر قائم رہیں، اور (اس سلسلے میں) ہم کسی ملامت گر کی ملامت سے نہ ڈریں ۲؎۔ [سنن نسائي/كتاب البيعة/حدیث: 4154]
وضاحت: ۱؎: اس کتاب میں ”بیعت“ سے متعلق جو بھی احکام بیان ہوئے ہیں، یہ واضح رہے کہ ان کا تعلق صرف خلیفہ وقت یا مسلم حکمراں یا اس کے نائبین کے ذریعہ اس کے لیے بیعت لینے سے ہے۔ عہد نبوی سے لے کر زمانہ خیرالقرون بلکہ بہت بعد تک ”بیعت“ سے ”سیاسی بیعت“ ہی مراد لی جاتی رہی، بعد میں جب تصوف کا بدعی چلن ہوا تو ”شیخ طریقت“ یا ”پیر و مرشد“ قسم کے لوگ بیعت کے صحیح معنی و مراد کو اپنے بدعی اغراض و مقاصد کے لیے استعمال کرنے لگے، یہ شرعی معنی کی تحریف ہے، نیز اسلامی فرقوں اور جماعتوں کے پیشواؤں نے بھی ”بیعت“ کے صحیح معنی کا غلط استعمال کیا ہے، فالحذر، الحذر۔ ۲؎: یعنی: ہم آپ کی ”اور آپ کے بعد آپ کے خلفاء کی اگر ان کی بات بھلائی کی ہو“ اطاعت آسانی و پریشانی ہر حال میں کریں گے، خواہ وہ بات ہمارے موافق ہو یا مخالف، اور اس بات پر بیعت کرتے ہیں کہ جو آدمی بھی شرعی قانونی طور سے ولی الامر بنا دیا جائے ہم اس سے اس کے عہدہ کو چھیننے کی کوشش نہیں کریں گے، وہ ولی الامر ہمارے فائدے کا معاملہ کرے یا اس کے کسی معاملہ میں ہمارا نقصان ہو، ہمارے غیروں کی ہم پر ترجیح ہو۔“ اولیاء الأمور (اسلامی مملکت کے حکمرانوں) کے بارے میں سلف کا صحیح موقف اور منہج یہی ہے، اسی کی روشنی میں موجودہ اسلامی تنظیموں کو اپنے موقف ومنہج کا جائزہ لینا چاہیئے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح أَخْبَرَنَا الْإِمَامُ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ النَّسَائِيُّ مِنْ لَفْظِهِ قَالَ:
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے تنگی و خوشی کی حالت میں سمع و طاعت پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی، پھر اسی طرح بیان کیا۔ [سنن نسائي/كتاب البيعة/حدیث: 4155]