الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن نسائي کل احادیث (5761)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن نسائي
كتاب الصيد والذبائح
کتاب: شکار اور ذبیحہ کے احکام و مسائل
35. بَابُ: مَيْتَةِ الْبَحْرِ
35. باب: مردہ سمندری جانوروں کی حلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 4355
أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فِي مَاءِ الْبَحْرِ:" هُوَ الطَّهُورُ مَاؤُهُ، الْحَلَالُ مَيْتَتُهُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سمندر کے پانی کے سلسلے میں فرمایا: اس کا پانی پاک ہے اور اس کا مردار حلال ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الصيد والذبائح/حدیث: 4355]
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 59 (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: سمندر کا مردار حلال ہے اس سے مراد سمندر کے وہ حلال جانور ہیں جو کسی صدمہ سے مر گئے اور سمندر نے ان کو ساحل کی طرف بہا دیا ہو اسی کو قرآن میں: «أحل لكم صيد البحر وطعامه» (المائدة: 96) میں طَعام سے مراد لیا گیا ہے، یاد رہے سمندری جانور وہ کہلاتا ہے جو خشکی میں زندگی نہ گزار سکے جیسے مچھلی۔ مچھلی کی تمام اقسام حلال ہیں، دیگر جانور اگر مضر اور خبیث ہیں یا ان کے بارے میں نص شرعی وارد ہے تو حرام ہیں اگر کسی جانور کا نص شرعی سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے کھانا ثابت نہیں ہے، جبکہ وہ جانور ان کے زمانہ میں موجود تھا تو اس کے نہ کھانے کے بارے میں ان کی اقتداء ضروری ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن

حدیث نمبر: 4356
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ آدَمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: بَعَثَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ ثَلَاثُ مِائَةٍ نَحْمِلُ زَادَنَا عَلَى رِقَابِنَا، فَفَنِيَ زَادُنَا حَتَّى كَانَ يَكُونُ لِلرَّجُلِ مِنَّا كُلَّ يَوْمٍ تَمْرَةٌ، فَقِيلَ لَهُ: يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، وَأَيْنَ تَقَعُ التَّمْرَةُ مِنَ الرَّجُلِ؟، قَالَ:" لَقَدْ وَجَدْنَا فَقْدَهَا حِينَ فَقَدْنَاهَا، فَأَتَيْنَا الْبَحْرَ، فَإِذَا بِحُوتٍ قَذَفَهُ الْبَحْرُ فَأَكَلْنَا مِنْهُ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ يَوْمًا".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (سریہ فوجی ٹولی میں) بھیجا، ہم تین سو تھے، ہم اپنا زاد سفر اپنی گردنوں پر لیے ہوئے تھے، ہمارا زاد سفر ختم ہو گیا، یہاں تک کہ ہم میں سے ہر شخص کے حصے میں روزانہ ایک کھجور آتی تھی، عرض کیا گیا: ابوعبداللہ! اتنی سی کھجور آدمی کا کیا بھلا کرے گی؟ انہوں نے کہا: ہمیں اس کا فائدہ تب معلوم ہوا جب ہم نے اسے بھی ختم کر دیا، پھر ہم سمندر پر گئے، دیکھا کہ ایک مچھلی ہے جسے سمندر نے باہر پھینک دیا ہے، تو ہم نے اسے اٹھارہ دن تک کھایا۔ [سنن نسائي/كتاب الصيد والذبائح/حدیث: 4356]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الشرکة 1 (2483)، الجہاد 124 (2983)، المغازي 65 (3463)، الصید 12 (5494)، سنن الترمذی/القیامة 34 (2475)، سنن ابن ماجہ/الزہد12(4159)، (تحفة الأشراف: 3125)، موطا امام مالک/صفة النبي ﷺ10(24) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري

حدیث نمبر: 4357
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَمْرٍو، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرًا، يَقُولُ: بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَ مِائَةِ رَاكِبٍ، أَمِيرُنَا أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ، نَرْصُدُ عِيرَ قُرَيْشٍ، فَأَقَمْنَا بِالسَّاحِلِ , فَأَصَابَنَا جُوعٌ شَدِيدٌ حَتَّى أَكَلْنَا الْخَبَطَ، قَالَ: فَأَلْقَى الْبَحْرُ دَابَّةً يُقَالُ لَهَا: الْعَنْبَرُ، فَأَكَلْنَا مِنْهُ نِصْفَ شَهْرٍ، وَادَّهَنَّا مِنْ وَدَكِهِ فَثَابَتْ أَجْسَامُنَا، وَأَخَذَ أَبُو عُبَيْدَةَ ضِلْعًا مِنْ أَضْلَاعِهِ، فَنَظَرَ إِلَى أَطْوَلِ جَمَلٍ، وَأَطْوَلِ رَجُلٍ فِي الْجَيْشِ فَمَرَّ تَحْتَهُ، ثُمَّ جَاعُوا فَنَحَرَ رَجُلٌ ثَلَاثَ جَزَائِرَ، ثُمَّ جَاعُوا فَنَحَرَ رَجُلٌ ثَلَاثَ جَزَائِرَ، ثُمَّ جَاعُوا فَنَحَرَ رَجُلٌ ثَلَاثَ جَزَائِرَ، ثُمَّ نَهَاهُ أَبُو عُبَيْدَةَ، قَالَ سُفْيَانُ: قَالَ أَبُو الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، فَسَأَلْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" هَلْ مَعَكُمْ مِنْهُ شَيْءٌ"؟، قَالَ: فَأَخْرَجْنَا مِنْ عَيْنَيْهِ كَذَا وَكَذَا، قُلَّةً مِنْ وَدَكٍ، وَنَزَلَ فِي حَجَّاجِ عَيْنِهِ أَرْبَعَةُ نَفَرٍ، وَكَانَ مَعَ أَبِي عُبَيْدَةَ جِرَابٌ فِيهِ تَمْرٌ فَكَانَ يُعْطِينَا الْقَبْضَةَ، ثُمَّ صَارَ إِلَى التَّمْرَةِ، فَلَمَّا فَقَدْنَاهَا وَجَدْنَا فَقْدَهَا.
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین سو سواروں کے ساتھ بھیجا۔ ہمارے امیر ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ تھے، ہم قریش کی گھات میں تھے، چنانچہ ہم سمندر کے کنارے ٹھہرے، ہمیں سخت بھوک لگی یہاں تک کہ ہم نے درخت کے پتے کھائے، اتنے میں سمندر نے ایک جانور نکال پھینکا جسے عنبر کہا جاتا ہے، ہم نے اسے آدھے مہینہ تک کھایا اور اس کی چربی کو تیل کے طور پر استعمال کیا، تو ہمارے بدن صحیح ثابت ہو گئے، ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے اس کی ایک پسلی لی پھر فوج میں سے سب سے لمبے شخص کو اونٹ پر بٹھایا، وہ اس کے نیچے سے گزر گیا، پھر ان لوگوں کو بھوک لگی، تو ایک شخص نے تین اونٹ ذبح کئے، پھر ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے اسے روک دیا، (سفیان کہتے ہیں: ابوالزبیر جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں)، پھر ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا، تو آپ نے فرمایا: کیا اس کا کچھ بقیہ تمہارے پاس ہے؟ پھر ہم نے اس کی آنکھوں کی چربی کا اتنا اتنا گھڑا (بھرا ہوا) نکالا اور اس کی آنکھ کے حلقے میں سے چار لوگ نکل گئے، ابوعبیدہ کے ساتھ ایک تھیلا تھا، جس میں کھجوریں تھیں وہ ہمیں ایک مٹھی کھجور دیتے تھے پھر ایک ایک کھجور ملنے لگی، جب وہ بھی ختم ہو گئی تو ہمیں اس کے نہ ملنے کا احساس ہوا ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الصيد والذبائح/حدیث: 4357]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المغازي 65 (4361)، الصید 12 (5494)، صحیح مسلم/الصید 3 (1935)، (تحفة الأشراف: 2529، 2770)، مسند احمد (3/308)، سنن الدارمی/الصید 6 (2055) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں واقعات کی ترتیب آگے پیچھے ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

حدیث نمبر: 4358
أَخْبَرَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: بَعَثَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ أَبِي عُبَيْدَةَ فِي سَرِيَّةٍ، فَنَفِدَ زَادُنَا فَمَرَرْنَا بِحُوتٍ قَدْ قَذَفَ بِهِ الْبَحْرُ، فَأَرَدْنَا أَنْ نَأْكُلَ مِنْهُ، فَنَهَانَا أَبُو عُبَيْدَةَ، ثُمَّ قَالَ: نَحْنُ رُسُلُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ كُلُوا. فَأَكَلْنَا مِنْهُ أَيَّامًا، فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرْنَاهُ، فَقَالَ:" إِنْ كَانَ بَقِيَ مَعَكُمْ شَيْءٌ فَابْعَثُوا بِهِ إِلَيْنَا".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک سریے (فوجی مہم) میں بھیجا، ہمارا زاد سفر ختم ہو گیا، ہمارا گزر ایک مچھلی سے ہوا جسے سمندر نے باہر نکال پھینکا تھا۔ ہم نے چاہا کہ اس میں سے کچھ کھائیں تو ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے ہمیں اس سے روکا، پھر کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نمائندے ہیں اور اللہ کے راستے میں نکلے ہیں، تم لوگ کھاؤ، چنانچہ ہم نے کچھ دنوں تک اس میں سے کھایا، پھر جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو ہم نے آپ کو اس کی خبر دی، آپ نے فرمایا: اگر تمہارے ساتھ (اس میں سے) کچھ باقی ہو تو اسے ہمارے پاس بھیجو ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الصيد والذبائح/حدیث: 4358]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 2992)، مسند احمد (3/303) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو حلال قرار دیا تبھی تو اس میں سے طلب فرمایا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم

حدیث نمبر: 4359
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَلِيِّ بْنِ مُقَدَّمٍ الْمُقَدَّمِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ أَبِي عُبَيْدَةَ، وَنَحْنُ ثَلَاثُ مِائَةٍ وَبِضْعَةَ عَشَرَ، وَزَوَّدَنَا جِرَابًا مِنْ تَمْرٍ فَأَعْطَانَا قَبْضَةً قَبْضَةً، فَلَمَّا أَنْ جُزْنَاهُ أَعْطَانَا تَمْرَةً تَمْرَةً حَتَّى إِنْ كُنَّا لَنَمُصُّهَا كَمَا يَمُصُّ الصَّبِيُّ، وَنَشْرَبُ عَلَيْهَا الْمَاءَ، فَلَمَّا فَقَدْنَاهَا وَجَدْنَا فَقْدَهَا حَتَّى إِنْ كُنَّا لَنَخْبِطُ الْخَبَطَ بِقِسِيِّنَا وَنَسَفُّهُ، ثُمَّ نَشْرَبُ عَلَيْهِ مِنَ الْمَاءِ حَتَّى سُمِّينَا جَيْشَ الْخَبَطِ، ثُمَّ أَجَزْنَا السَّاحِلَ فَإِذَا دَابَّةٌ مِثْلُ الْكَثِيبِ , يُقَالُ لَهُ: الْعَنْبَرُ، فَقَالَ أَبُو عُبَيْدَةَ: مَيْتَةٌ لَا تَأْكُلُوهُ". ثُمَّ قَالَ جَيْشُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَنَحْنُ مُضْطَرُّونَ، كُلُوا بِاسْمِ اللَّهِ، فَأَكَلْنَا مِنْهُ وَجَعَلْنَا مِنْهُ وَشِيقَةً، وَلَقَدْ جَلَسَ فِي مَوْضِعِ عَيْنِهِ ثَلَاثَةَ عَشَرَ رَجُلًا، قَالَ: فَأَخَذَ أبُو عُبَيْدَةَ ضِلْعًا مِنْ أَضْلَاعِهِ فَرَحَلَ بِهِ أَجْسَمَ بَعِيرٍ مِنْ أَبَاعِرِ الْقَوْمِ فَأَجَازَ تَحْتَهُ، فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَا حَبَسَكُمْ"، قُلْنَا: كُنَّا نَتَّبِعُ عِيرَاتِ قُرَيْشٍ، وَذَكَرْنَا لَهُ مِنْ أَمْرِ الدَّابَّةِ، فَقَالَ:" ذَاكَ رِزْقٌ رَزَقَكُمُوهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، أَمَعَكُمْ مِنْهُ شَيْءٌ؟"، قَالَ: قُلْنَا: نَعَمْ.
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ (ایک فوجی مہم میں) بھیجا، ہم تقریباً تین سو دس لوگ تھے، ہمیں توشہ کے بطور کھجور کا ایک تھیلا دیا گیا، وہ ہمیں ایک ایک مٹھی دیتے، پھر جب ہم اکثر کھجوریں کھا چکے تو ہمیں ایک ایک کھجور دینے لگے، یہاں تک کہ ہم اسے اس طرح چوستے جیسے بچہ چوستا ہے اور اس پر پانی پی لیتے، جب وہ بھی ختم ہو گئی تو ہمیں ختم ہونے پر اس کی قدر معلوم ہوئی، نوبت یہاں تک پہنچی کہ ہم اپنی کمانوں سے پتے جھاڑتے اور اسے چبا کر پانی پی لیتے، یہاں تک کہ ہماری فوج کا نام ہی جیش الخبط (یعنی پتوں والا لشکر) پڑ گیا، پھر جب ہم سمندر کے کنارے پر پہنچے تو ٹیلے کی طرح ایک جانور پڑا ہوا پایا جسے عنبر کہا جاتا ہے، ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے کہا: مردہ ہے مت کھاؤ، پھر کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لشکر ہے اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں ہے اور ہم مجبور ہیں، اللہ کا نام لے کر کھاؤ، چنانچہ ہم نے اس میں سے کھایا اور کچھ گوشت بھون کر سکھا کر رکھ لیا، اس کی آنکھ کی جگہ میں تیرہ لوگ بیٹھے، ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے اس کی پسلی لی پھر کچھ لوگوں کو اونٹ پر سوار کیا تو وہ اس کے نیچے سے گزر گئے، جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ نے فرمایا: تمہیں کس چیز نے روکے رکھا؟ ہم نے عرض کیا: ہم قریش کے قافلوں کا پیچھا کر رہے تھے، پھر ہم نے آپ سے اس جانور (عنبر مچھلی) کا معاملہ بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ رزق ہے جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں بخشا ہے، کیا اس میں سے کچھ تمہارے پاس ہے؟ ہم نے عرض کیا: جی ہاں۔ [سنن نسائي/كتاب الصيد والذبائح/حدیث: 4359]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 2987) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح