عبداللہ دیلمی کے والد فیروز رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم انگور والے لوگ ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے شراب کی حرمت نازل فرما دی ہے، اب ہم کیا کریں؟ آپ نے فرمایا: ”اسے سکھا کر منقیٰ بنا لو“۔ میں نے کہا: تب ہم منقیٰ کا کیا کریں؟ آپ نے فرمایا: ”اسے صبح کے وقت بھگوؤ دو اور شام کو پیو، اور شام کو بھگوؤ صبح کو پیو“۔ میں نے کہا: دیر تک نہ رہنے دیں یہاں تک کہ اس میں تیزی آ جائے؟ آپ نے فرمایا: ”اسے گھڑوں میں مت رکھو بلکہ چمڑے کی مشک میں رکھو اس لیے کہ اگر اس میں زیادہ دیر تک رہا تو وہ (مشروب) سرکہ بن جائے گا“۔ [سنن نسائي/كتاب الأشربة/حدیث: 5738]
وضاحت: ۱؎: اس باب میں (بشمول باب ۵۷) جو احادیث و آثار مذکور ہیں ان کا حاصل مطلب یہ ہے کہ کچھ مشروبات کی نوعیت یہ ہوتی ہے کہ کسی مرحلہ میں ان میں نشہ نہیں ہوتا اور کسی مرحلہ میں ہو جاتا ہے، تو جب مرحلہ میں نشہ نہیں ہوتا اس کا پینا حلال ہے، اور جب نشہ پیدا ہو جائے تو خواہ کم مقدار میں ہو یا زیادہ مقدار میں کم مقدار میں پینے سے خواہ نشہ آئے یا نہ آئے اس کا پینا حرام ہے۔ «الحمدللہ الذی بنعمتہ تتم الصالحات» ۔
فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارے انگور کے باغات ہیں ہم ان کا کیا کریں؟ آپ نے فرمایا: ”ان کا منقیٰ اور کشمش بنا لو“، ہم نے عرض کیا: پھر منقے اور کشمش کا کیا کریں، آپ نے فرمایا: ”صبح کو بھگاؤ اور شام کو پی لو، اور شام کو بھگاؤ صبح کو پی لو، اور اسے مشکیزوں میں بھگاؤ، گھڑوں میں نہ بھگانا، اس لیے کہ اگر اس میں وہ (مشروب) دیر تک رہ گیا تو سرکہ بن جائے گا“۔ [سنن نسائي/كتاب الأشربة/حدیث: 5739]
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نبیذ تیار کی جاتی تھی، آپ اسے دوسرے دن اور تیسرے دن پیتے ۱؎، جب تیسرے دن کی شام ہوتی اور اگر اس میں سے کچھ برتن میں بچ گئی ہوتی تو اسے نہیں پیتے بلکہ بہا دیتے۔ [سنن نسائي/كتاب الأشربة/حدیث: 5740]
وضاحت: ۱؎: صحیح مسلم میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہم نبیذ تیار کرتے جسے آپ ایک دن اور رات تک پیتے، تو یہ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اس حدیث کے معارض نہیں ہے کیونکہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں اس سے زیادہ مدت تک پینے کی نفی نہیں ہے۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کشمش بھگوئی جاتی تھی، آپ اسے اس دن، دوسرے دن اور تیسرے دن تک پیتے۔ [سنن نسائي/كتاب الأشربة/حدیث: 5741]
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے رات کو کشمش کی نبیذ تیار کی جاتی، وہ مشکیزے میں رکھی جاتی پھر آپ اسے اس دن، دوسرے دن اور اس کے بعد کے (تیسرے) دن پیتے، جب تیسرے دن کا آخری وقت ہوتا تو آپ اسے (کسی کو) پلاتے یا خود پی لیتے اور صبح تک کچھ باقی رہ جاتی تو اسے بہا دیتے۔ [سنن نسائي/كتاب الأشربة/حدیث: 5742]
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ان کے لیے مشکیزے میں کشمش صبح کو بھگوئی جاتی، پھر وہ اسے رات کو پیتے اور شام کو بھگوئی جاتی تو صبح کو پیتے، اور وہ مشکیزے کو دھو لیتے تھے، اور معمولی سا تل چھٹ وغیرہ نہیں رہنے دیتے۔ نافع کہتے ہیں: ہم اسے شہد کی طرح پیتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الأشربة/حدیث: 5743]
بسام کہتے ہیں کہ میں نے ابو جعفر سے نبیذ کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا: علی بن حسین کے لیے رات کو نبیذ تیار کی جاتی تو وہ صبح کو پیتے، اور صبح کو تیار کی جاتی تو رات کو پیتے۔ [سنن نسائي/كتاب الأشربة/حدیث: 5744]
عبداللہ بن المبارک کہتے ہیں کہ میں نے سفیان سے سنا: ان سے نبیذ کے بارے میں سوال کیا گیا؟ انہوں نے کہا: شام کو بھگو دو اور صبح کو پیو۔ [سنن نسائي/كتاب الأشربة/حدیث: 5745]
ابوعثمان (جو ابوعثمان نہدی نہیں ہیں) سے روایت ہے کہ ام الفضل نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے گھڑے کی نبیذ کے بارے میں مسئلہ پوچھوایا۔ تو انہوں نے اپنے بیٹے نضر کے واسطہ سے ان کو بتایا کہ وہ گھڑے میں نبیذ تیار کرتے تھے، اور صبح کو نبیذ تیار کرتے اور شام کو پیتے۔ [سنن نسائي/كتاب الأشربة/حدیث: 5746]
سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ وہ مکروہ سمجھتے تھے کہ نبیذ کے تل چھٹ کو نبیذ میں ملایا جائے تاکہ تل چھٹ کی وجہ سے اس میں تیزی آ جائے۔ [سنن نسائي/كتاب الأشربة/حدیث: 5747]
سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ خمر کا نام خمر اس لیے پڑا کہ وہ کچھ دیر رکھ چھوڑا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ نتھر کر بالکل صاف ہو جاتا ہے، اور نیچے تل چھٹ بیٹھ جاتی ہے، اور وہ ہر اس نبیذ کو مکروہ سمجھتے تھے جس میں تل چھٹ ملا دی گئی ہو۔ [سنن نسائي/كتاب الأشربة/حدیث: 5749]