الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن نسائي کل احادیث (5761)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن نسائي
كتاب الأذان
کتاب: اذان کے احکام و مسائل
41. بَابُ: إِيذَانِ الْمُؤَذِّنِينَ الأَئِمَّةَ بِالصَّلاَةِ
41. باب: مؤذن کا امام کو نماز کی خبر دینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 686
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، قال: أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قال: أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، وَيُونُسُ، وَعَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، أَنَّ ابْنَ شِهَابٍ أَخْبَرَهُمْ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قالت: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يُصَلِّي فِيمَا بَيْنَ أَنْ يَفْرُغَ مِنْ صَلَاةِ الْعِشَاءِ إِلَى الْفَجْرِ إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُسَلِّمُ بَيْنَ كُلِّ رَكْعَتَيْنِ وَيُوتِرُ بِوَاحِدَةٍ وَيَسْجُدُ سَجْدَةً قَدْرَ مَا يَقْرَأُ أَحَدُكُمْ خَمْسِينَ آيَةً، ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ، فَإِذَا سَكَتَ الْمُؤَذِّنُ مِنْ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَتَبَيَّنَ لَهُ الْفَجْرُ، رَكَعَ رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ ثُمَّ اضْطَجَعَ عَلَى شِقِّهِ الْأَيْمَنِ حَتَّى يَأْتِيَهُ الْمُؤَذِّنُ بِالْإِقَامَةِ، فَيَخْرُجُ مَعَهُ". وَبَعْضُهُمْ يَزِيدُ عَلَى بَعْضٍ فِي الْحَدِيثِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عشاء سے فارغ ہونے سے لے کر فجر تک گیارہ رکعتیں پڑھتے تھے، ہر دو رکعت کے درمیان سلام پھیرتے، اور ایک رکعت وتر پڑھتے ۱؎ اور ایک اتنا لمبا سجدہ کرتے کہ اتنی دیر میں تم میں کا کوئی پچاس آیتیں پڑھ لے، پھر اپنا سر اٹھاتے، اور جب مؤذن فجر کی اذان دے کر خاموش ہو جاتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فجر عیاں اور ظاہر ہو جاتی تو ہلکی ہلکی دو رکعتیں پڑھتے، پھر اپنے داہنے پہلو پر لیٹ جاتے یہاں تک کہ مؤذن آ کر آپ کو خبر کر دیتا کہ اب اقامت ہونے والی ہے، تو آپ اس کے ساتھ نکلتے۔ بعض راوی ایک دوسرے پر اس حدیث میں اضافہ کرتے ہیں۔ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 686]
تخریج الحدیث: «وقد أخرجہ: صحیح مسلم/المسافرین 17 (736)، سنن ابی داود/الصلاة 316 (1337)، (تحفة الأشراف: 16573)، مسند احمد 6/34، 74، 83، 85، 88، 143، 215، 248، ویأتي عند المؤلف في السھو 74 (برقم: 1329) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: اس سے صراحت کے ساتھ ایک رکعت کے وتر کا جواز ثابت ہوتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

حدیث نمبر: 687
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْحَكَمِ، عَنْ شُعَيْبٍ، عَنْ اللَّيْثِ، قال: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ ابْنِ أَبِي هِلَالٍ، عَنْ مَخْرَمَةَ بْنِ سُلَيْمَانَ، أَنَّ كُرَيْبًا مُولِي ابْنِ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ، قال: سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، قُلْتُ: كَيْفَ كَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِاللَّيْلِ؟ فَوَصَفَ أَنَّهُ" صَلَّى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً بِالْوِتْرِ ثُمَّ نَامَ حَتَّى اسْتَثْقَلَ فَرَأَيْتُهُ يَنْفُخُ، وَأَتَاهُ بِلَالٌ، فَقَالَ: الصَّلَاةُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ وَصَلَّى بِالنَّاسِ وَلَمْ يَتَوَضَّأْ".
کریب مولی ابن عباس کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہم سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تہجد (صلاۃ اللیل) کیسی تھی؟ تو انہوں نے بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر کے ساتھ گیارہ رکعتیں پڑھیں، پھر سو گئے یہاں تک کہ نیند گہری ہو گئی، پھر میں نے آپ کو خراٹے لیتے ہوئے دیکھا، اتنے میں آپ کے پاس بلال رضی اللہ عنہ آئے، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! نماز؟ تو آپ نے اٹھ کر دو رکعتیں پڑھیں، پھر لوگوں کو نماز پڑھائی اور (پھر سے) وضو نہیں کیا۔ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 687]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوضوء 5 (138)، 36 (183)، الأذان 58 (698)، 77 (726)، 161 (859)، الوتر 1 (992)، العمل في الصلاة 1 (1198)، تفسیر آل عمران 19 (4571)، 20 (4572)، الدعوات 10 (6316)، التوحید 27 (7452)، صحیح مسلم/المسافرین 26 (763)، سنن ابی داود/الصلاة 316 (1364، 1367)، سنن الترمذی/الشمائل 38، 39، 245، 252، سنن ابن ماجہ/إقامة 181 (1363)، (تحفة الأشراف: 6362)، موطا امام مالک/صلاة اللیل 2 (11)، مسند احمد 1/242، 358، ویأتي عند المؤلف برقم: 1621 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه