الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن نسائي کل احادیث (5761)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن نسائي
كتاب الافتتاح
کتاب: نماز شروع کرنے کے مسائل و احکام
37. بَابُ: جَامِعِ مَا جَاءَ فِي الْقُرْآنِ
37. باب: قرآن سے متعلق جامع باب۔
حدیث نمبر: 934
أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قال: أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قالت: سَأَلَ الْحَارِثُ بْنُ هِشَامٍ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَيْفَ يَأْتِيكَ الْوَحْيُ. قَالَ:" فِي مِثْلِ صَلْصَلَةِ الْجَرَسِ فَيَفْصِمُ عَنِّي وَقَدْ وَعَيْتُ زِيَادَةً وَهُوَ أَشَدُّهُ عَلَيَّ وَأَحْيَانًا يَأْتِينِي فِي مِثْلِ صُورَةِ الْفَتَى فَيَنْبِذُهُ إِلَيَّ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ حارث بن ہشام رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: آپ پر وحی کیسے آتی ہے؟ تو آپ نے جواب دیا: گھنٹی کی آواز کی طرح، پھر وہ بند ہو جاتی ہے اور میں اسے یاد کر لیتا ہوں، اور یہ قسم میرے اوپر سب سے زیادہ سخت ہوتی ہے، اور کبھی وحی کا فرشتہ میرے پاس نوجوان آدمی کی شکل میں آتا ہے، اور وہ مجھ سے کہہ جاتا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 934]
تخریج الحدیث: «وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الفضائل 23 (2333)، (تحفة الأشراف: 16924)، موطا امام مالک/القرآن 4 (7)، مسند احمد 6/158، 163، 257 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

حدیث نمبر: 935
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ وَاللَّفْظُ لَهُ، عَنِ ابْنِ الْقَاسِمِ، قال: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ الْحَارِثَ بْنَ هِشَامٍ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَيْفَ يَأْتِيكَ الْوَحْيُ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَحْيَانًا يَأْتِينِي فِي مِثْلِ صَلْصَلَةِ الْجَرَسِ وَهُوَ أَشَدُّهُ عَلَيَّ فَيَفْصِمُ عَنِّي وَقَدْ وَعَيْتُ مَا قَالَ وَأَحْيَانًا يَتَمَثَّلُ لِي الْمَلَكُ رَجُلًا فَيُكَلِّمُنِي فَأَعِي مَا يَقُولُ" قَالَتْ عَائِشَةُ وَلَقَدْ رَأَيْتُهُ يَنْزِلُ عَلَيْهِ فِي الْيَوْمِ الشَّدِيدِ الْبَرْدِ فَيَفْصِمُ عَنْهُ وَإِنَّ جَبِينَهُ لَيَتَفَصَّدُ عَرَقًا.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ حارث بن ہشام رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: آپ پر وحی کیسے آتی ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کبھی میرے پاس گھنٹی کی آواز کی شکل میں آتی ہے، اور یہ قسم میرے اوپر سب سے زیادہ سخت ہوتی ہے، پھر وہ بند ہو جاتی ہے اور جو وہ کہتا ہے میں اسے یاد کر لیتا ہوں، اور کبھی میرے پاس فرشتہ آدمی کی شکل میں آتا ہے ۱؎ اور مجھ سے باتیں کرتا ہے، اور جو کچھ وہ کہتا ہے میں اسے یاد کر لیتا ہوں، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے کڑکڑاتے جاڑے میں آپ پر وحی اترتے دیکھا، پھر وہ بند ہوتی اور حال یہ ہوتا کہ آپ کی پیشانی سے پسینہ بہہ رہا ہوتا۔ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 935]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/بدء الوحي 2 (2)، سنن الترمذی/المناقب 7 (3634)، (تحفة الأشراف: 17152)، موطا امام مالک/القرآن 4 (7)، مسند احمد 6/256 (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: «یتمثل لي الملک رجلاً» میں رَجَلاً منصوب بنزع الخافض» ہے، تقدیر یوں ہو گی یتمثل لي الملک صورۃ رجل»، «صورۃ» جو «مضاف» تھا حذف کر دیا گیا ہے، اور «رجل» جو «مضاف الیہ» کو «مضاف» کا اعراب دے دیا گیا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري

حدیث نمبر: 936
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ قال: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ لا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ {16} إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْءَانَهُ {17} سورة القيامة آية 16-17 قال:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَالِجُ مِنَ التَّنْزِيلِ شِدَّةً، وَكَانَ يُحَرِّكُ شَفَتَيْهِ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: لا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ {16} إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْءَانَهُ {17} سورة القيامة آية 16-17 قَالَ: جَمْعَهُ فِي صَدْرِكَ ثُمَّ تَقْرَأهُ، فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ، قَالَ: فَاسْتَمِعْ لَهُ وَأَنْصِتْ فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَتَاهُ جِبْرِيلُ اسْتَمَعَ فَإِذَا انْطَلَقَ قَرَأَهُ كَمَا أَقْرَأَهُ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے اللہ تعالیٰ کے قول: «لا تحرك به لسانك لتعجل به * إن علينا جمعه وقرآنه» (القیامۃ: ۱۶- ۱۷) کی تفسیر میں مروی ہے، کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وحی اترتے وقت بڑی تکلیف برداشت کرتے تھے، اپنے ہونٹ ہلاتے رہتے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے نبی! آپ قرآن کو جلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دیں، کیونکہ اس کا جمع کرنا اور پڑھانا ہمارے ذمہ ہے ۱؎، ابن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ «جمعه» کے معنی: اس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ میں بیٹھا دینا ہے، اور «قرآنه» کے معنی اسے اس طرح پڑھوا دینا ہے کہ جب آپ چاہیں اسے پڑھنے لگ جائیں «فإذا قرأناه فاتبع قرآنه» میں «فاتبع قرآنه» کے معنی ہیں: آپ اسے غور سے سنیں، اور چپ رہیں، چنانچہ جب جبرائیل علیہ السلام آپ کے پاس وحی لے کر آتے تو آپ بغور سنتے تھے، اور جب روانہ ہو جاتے تو آپ اسے پڑھتے جس طرح انہوں نے پڑھایا ہوتا۔ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 936]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/بدء الوحي 4 (5)، تفسیر ’’القیامة‘‘ 1 (4927) مختصراً، 2 (4928) مختصراً، 3 (4929)، فضائل القرآن 28 (5044)، التوحید 43 (7524)، صحیح مسلم/الصلاة 32 (448)، سنن الترمذی/تفسیر ’’القیامة‘‘ 71 (3329) مختصراً، (تحفة الأشراف: 5637)، مسند احمد 1/220، 343 (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یعنی یہ ہمارے ذمہ ہے کہ اسے آپ کے دل میں بٹھا دیں، اور آپ اسے پڑھنے لگیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

حدیث نمبر: 937
أَخْبَرَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ قال: أَنْبَأَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى قال: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنِ ابْنِ مَخْرَمَةَ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قال: سَمِعْتُ هِشَامَ بْنَ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ يَقْرَأُ سُورَةَ الْفُرْقَانِ فَقَرَأَ فِيهَا حُرُوفًا لَمْ يَكُنْ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْرَأَنِيهَا قُلْتُ: مَنْ أَقْرَأَكَ هَذِهِ السُّورَةَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْتُ: كَذَبْتَ مَا هَكَذَا أَقْرَأَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخَذْتُ بِيَدِهِ أَقُودُهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّكَ أَقْرَأْتَنِي سُورَةَ الْفُرْقَانِ وَإِنِّي سَمِعْتُ هَذَا يَقْرَأُ فِيهَا حُرُوفًا لَمْ تَكُنْ أَقْرَأْتَنِيهَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اقْرَأْ يَا هِشَام" فَقَرَأَ كَمَا كَانَ يَقْرَأُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَكَذَا أُنْزِلَتْ"، ثُمَّ قَالَ:" اقْرَأْ يَا عُمَرُ" فَقَرَأْتُ فَقَالَ هَكَذَا أُنْزِلَتْ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ الْقُرْآنَ أُنْزِلَ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ".
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ہشام بن حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کو سورۃ الفرقان پڑھتے سنا، انہوں نے اس میں کچھ الفاظ اس طرح پڑھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس طرح نہیں پڑھائے تھے تو میں نے پوچھا: یہ سورت آپ کو کس نے پڑھائی ہے؟ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے، میں نے کہا: آپ غلط کہتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اس طرح کبھی نہیں پڑھائی ہو گی! چنانچہ میں نے ان کا ہاتھ پکڑا، اور انہیں کھینچ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گیا، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے مجھے سورۃ الفرقان پڑھائی ہے، اور میں نے انہیں اس میں کچھ ایسے الفاظ پڑھتے سنا ہے جو آپ نے مجھے نہیں پڑھائے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہشام! ذرا پڑھو تو، تو انہوں نے ویسے ہی پڑھا جس طرح پہلے پڑھا تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ سورت اسی طرح اتری ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمر! اب تم پڑھو تو، تو میں نے پڑھا، تب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسی طرح اتری ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قرآن سات حرفوں پر نازل کیا گیا ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 937]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الخصومات 4 (2419)، فضائل القرآن 5 (4992)، 27 (5041)، المرتدین 9 (6936)، التوحید 53 (7550)، صحیح مسلم/المسافرین 48 (818)، سنن ابی داود/الصلاة 357 (1475)، سنن الترمذی/القرائات 11 (2944)، (تحفة الأشراف: 10591، 10642)، موطا امام مالک/القرآن 4 (5)، مسند احمد 1/24، 40، 42، 43، 263 (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: اس کی تفسیر میں امام سیوطی نے الاتقان میں (۳۰) سے زائد اقوال نقل کئے ہیں جس میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد سات مشہور لغات ہیں، بعضوں نے کہا اس سے مراد سات لہجے ہیں جو عربوں کے مختلف قبائل میں مروج تھے، اور بعضوں نے کہا کہ اس سے مراد سات مشہور قراتیں ہیں جنہیں قرات سبعہ کہا جاتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

حدیث نمبر: 938
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ وَاللَّفْظُ لَهُ، عَنِ ابْنِ الْقَاسِمِ، قال: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ الْقَارِيِّ، قال: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ سَمِعْتُ هِشَامَ بْنَ حَكِيمٍ يَقْرَأُ سُورَةَ الْفُرْقَانِ عَلَى غَيْرِ مَا أَقْرَؤُهَا عَلَيْهِ وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْرَأَنِيهَا فَكِدْتُ أَنْ أَعْجَلَ عَلَيْهِ ثُمَّ أَمْهَلْتُهُ حَتَّى انْصَرَفَ، ثُمَّ لَبَّبْتُهُ بِرِدَائِهِ فَجِئْتُ بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي سَمِعْتُ هَذَا يَقْرَأُ سُورَةَ الْفُرْقَانِ عَلَى غَيْرِ مَا أَقْرَأْتَنِيهَا فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اقْرَأْ فَقَرَأَ الْقِرَاءَةَ الَّتِي سَمِعْتُهُ يَقْرَأُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَكَذَا أُنْزِلَتْ، ثُمَّ قَالَ لِيَ اقْرَأْ فَقَرَأْتُ فَقَالَ: هَكَذَا أُنْزِلَتْ إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ أُنْزِلَ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ".
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ کو سورۃ الفرقان پڑھتے سنا، جس طرح میں پڑھ رہا تھا وہ اس کے خلاف پڑھ رہے تھے، جبکہ مجھے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھایا تھا، تو قریب تھا کہ میں ان کے خلاف جلد بازی میں کچھ کر بیٹھوں ۱؎، لیکن میں نے انہیں مہلت دی یہاں تک کہ وہ پڑھ کر فارغ ہو گئے، پھر میں نے ان کی چادر سمیت ان کا گریبان پکڑ کر انہیں کھینچا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آیا، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے انہیں سورۃ الفرقان ایسے طریقہ پر پڑھتے سنا ہے جو اس طریقہ کے خلاف ہے جس طریقہ پر آپ نے مجھے یہ سورت پڑھائی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: (اچھا) تم پڑھو!، انہوں نے اسی طریقہ پر پڑھا جس پر میں نے ان کو پڑھتے ہوئے سنا تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ اسی طرح نازل کی گئی ہے، پھر مجھ سے فرمایا: تم پڑھو! تو میں نے بھی پڑھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ اسی طرح نازل کی گئی ہے، یہ قرآن سات حرفوں پر نازل کیا گیا ہے، ان میں سے جو آسان ہو تم اسی طرح پڑھو۔ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 938]
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 10591) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یعنی نماز ہی کی حالت میں انہیں پکڑ کر کھینچ لوں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

حدیث نمبر: 939
أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قال: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قال: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ قال: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ، وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَبْدٍ الْقَارِيَّ أَخْبَرَاهُ، أَنَّهُمَا سَمِعَا عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ هِشَامَ بْنَ حَكِيمٍ يَقْرَأُ سُورَةَ الْفُرْقَانِ فِي حَيَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَمَعْتُ لِقِرَاءَتِهِ فَإِذَا هُوَ يَقْرَؤُهَا عَلَى حُرُوفٍ كَثِيرَةٍ لَمْ يُقْرِئْنِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكِدْتُ أُسَاوِرُهُ فِي الصَّلَاةِ فَتَصَبَّرْتُ حَتَّى سَلَّمَ فَلَمَّا سَلَّمَ لَبَّبْتُهُ بِرِدَائِهِ فَقُلْتُ مَنْ أَقْرَأَكَ هَذِهِ السُّورَةَ الَّتِي سَمِعْتُكَ تَقْرَؤُهَا فَقَالَ: أَقْرَأَنِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: كَذَبْتَ فَوَاللَّهِ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ أَقْرَأَنِي هَذِهِ السُّورَةَ الَّتِي سَمِعْتُكَ تَقْرَؤُهَا فَانْطَلَقْتُ بِهِ أَقُودُهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي سَمِعْتُ هَذَا يَقْرَأُ سُورَةَ الْفُرْقَانِ عَلَى حُرُوفٍ لَمْ تُقْرِئْنِيهَا وَأَنْتَ أَقْرَأْتَنِي سُورَةَ الْفُرْقَانِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَرْسِلْهُ يَا عُمَرُ اقْرَأْ يَا هِشَامُ" فَقَرَأَ عَلَيْهِ الْقِرَاءَةَ الَّتِي سَمِعْتُهُ يَقْرَؤُهَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَكَذَا أُنْزِلَتْ"، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اقْرَأْ يَا عُمَرُ" فَقَرَأْتُ الْقِرَاءَةَ الَّتِي أَقْرَأَنِي قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَكَذَا أُنْزِلَتْ"، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ أُنْزِلَ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ".
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ کو سورۃ الفرقان پڑھتے سنا تو میں ان کی قرآت غور سے سننے لگا، تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ کچھ الفاظ ایسے طریقے پر پڑھ رہے ہیں جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نہیں پڑھایا تھا، چنانچہ قریب تھا کہ میں ان پر نماز میں ہی جھپٹ پڑوں لیکن میں نے صبر سے کام لیا، یہاں تک کہ انہوں نے سلام پھیر دیا، جب وہ سلام پھیر چکے تو میں نے ان کی چادر سمیت ان کا گریبان پکڑا، اور پوچھا: یہ سورت جو میں نے آپ کو پڑھتے ہوئے سنی ہے آپ کو کس نے پڑھائی ہے؟ انہوں نے جواب دیا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھائی ہے، میں نے کہا: تم جھوٹ کہہ رہے ہو: اللہ کی قسم یہی سورت جو میں نے آپ کو پڑھتے ہوئے سنی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خود مجھے پڑھائی ہے، بالآخر میں انہیں کھینچ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا، اور میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے انہیں سورۃ الفرقان کے کچھ الفاظ پڑھتے سنا ہے کہ اس طرح آپ نے مجھے نہیں پڑھایا ہے، حالانکہ سورۃ الفرقان آپ نے ہی مجھ کو پڑھائی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمر! انہیں چھوڑ دو، اور ہشام! تم پڑھو! تو انہوں نے اسے اسی طرح پر پڑھا جس طرح میں نے انہیں پڑھتے سنا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ اسی طرح نازل کی گئی ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمر! اب تم پڑھو! تو میں نے اس طرح پڑھا جیسے آپ نے مجھے پڑھایا تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ اسی طرح نازل کی گئی ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ قرآن سات حرفوں پر نازل کیا گیا ہے، ان میں سے جو آسان ہو اسی پر پڑھو۔ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 939]
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 937، (تحفة الأشراف: 10591) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

حدیث نمبر: 940
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قال: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ غُنْدَرٌ قال: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ عِنْدَ أَضَاةِ بَنِي غِفَارٍ فَأَتَاهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَأْمُرُكَ أَنْ تُقْرِئَ أُمَّتَكَ الْقُرْآنَ عَلَى حَرْفٍ، قَالَ:" أَسْأَلُ اللَّهَ مُعَافَاتَهُ وَمَغْفِرَتَهُ وَإِنَّ أُمَّتِي لَا تُطِيقُ ذَلِكَ"، ثُمَّ أَتَاهُ الثَّانِيَةَ، فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَأْمُرُكَ أَنْ تُقْرِئَ أُمَّتَكَ الْقُرْآنَ عَلَى حَرْفَيْنِ، قَالَ:" أَسْأَلُ اللَّهَ مُعَافَاتَهُ وَمَغْفِرَتَهُ وَإِنَّ أُمَّتِي لَا تُطِيقُ ذَلِكَ"، ثُمَّ جَاءَهُ الثَّالِثَةَ، فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَأْمُرُكَ أَنْ تُقْرِئَ أُمَّتَكَ الْقُرْآنَ عَلَى ثَلَاثَةِ أَحْرُفٍ، فَقَالَ:" أَسْأَلُ اللَّهَ مُعَافَاتَهُ وَمَغْفِرَتَهُ وَإِنَّ أُمَّتِي لَا تُطِيقُ ذَلِكَ"، ثُمَّ جَاءَهُ الرَّابِعَةَ فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَأْمُرُكَ أَنْ تُقْرِئَ أُمَّتَكَ الْقُرْآنَ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ فَأَيُّمَا حَرْفٍ قَرَءُوا عَلَيْهِ فَقَدْ أَصَابُوا" قَالَ: أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: هَذَا الْحَدِيثُ خُولِفَ فِيهِ الْحَكَمُ خَالَفَهُ مَنْصُورُ بْنُ الْمُعْتَمِرِ. رَوَاهُ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ مُرْسَلًا.
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبیلہ غفار کے تالاب کے پاس تھے کہ جبرائیل علیہ السلام آپ کے پاس تشریف لائے، اور کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ اپنی امت کو ایک ہی حرف پر قرآن پڑھائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اللہ تعالیٰ سے عفو و مغفرت کی درخواست کرتا ہوں، اور میری امت اس کی طاقت نہیں رکھتی، پھر دوسری بار جبرائیل علیہ السلام آپ کے پاس آئے، اور انہوں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ اپنی امت کو دو حرفوں پر قرآن پڑھائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اللہ سے عفو و مغفرت کا طلب گار ہوں، اور میری امت اس کی طاقت نہیں رکھتی، پھر جبرائیل علیہ السلام تیسری بار آپ کے پاس آئے اور انہوں کہا: اللہ تعالیٰ آپ کو حکم دیتا ہے کہ آپ اپنی امت کو قرآن تین حرفوں پر قرآن پڑھائیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اپنے رب سے عفو و مغفرت کی درخواست کرتا ہوں، اور میری امت اس کی طاقت نہیں رکھتی ہے، پھر وہ آپ کے پاس چوتھی بار آئے، اور انہوں نے کہا: اللہ تعالیٰ آپ کو حکم دے رہا ہے کہ آپ اپنی امت کو سات حرفوں پر قرآن پڑھائیں، تو وہ جس حرف پر بھی پڑھیں گے صحیح پڑھیں گے۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: اس حدیث میں حکم کی مخالفت کی گئی ہے، منصور بن معتمر نے ان کی مخالفت کی ہے، اسے «مجاهد عن عبيد بن عمير» کے طریق سے مرسلاً روایت کیا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 940]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المسافرین 48 (820، 821)، سنن ابی داود/الصلاة 357 (1478)، (تحفة الأشراف: 60)، مسند احمد 5/127، 128 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم

حدیث نمبر: 941
أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ قال: حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرِ بْنُ نُفَيْلٍ قال: قَرَأْتُ عَلَى مَعْقِلِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ قال: أَقْرَأَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُورَةً فَبَيْنَا أَنَا فِي الْمَسْجِدِ جَالِسٌ إِذْ سَمِعْتُ رَجُلًا يَقْرَؤُهَا يُخَالِفُ قِرَاءَتِي فَقُلْتُ لَهُ: مَنْ عَلَّمَكَ هَذِهِ السُّورَةَ فَقَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ لَا تُفَارِقْنِي حَتَّى نَأْتِيَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَيْتُهُ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ هَذَا خَالَفَ قِرَاءَتِي فِي السُّورَةِ الَّتِي عَلَّمْتَنِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اقْرَأْ يَا أُبَيُّ" فَقَرَأْتُهَا فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَحْسَنْتَ"، ثُمَّ قَالَ لِلرَّجُلِ:" اقْرَأْ فَقَرَأَ فَخَالَفَ قِرَاءَتِي" فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْسَنْتَ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا أُبَيُّ:" إِنَّهُ أُنْزِلَ الْقُرْآنُ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ كُلُّهُنَّ شَافٍ كَافٍ" قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: مَعْقِلُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ لَيْسَ بِذَلِكَ الْقَوِيِّ".
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک سورت پڑھائی تھی، میں مسجد میں بیٹھا ہوا تھا کہ میں نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ اسی سورت کو پڑھ رہا ہے، اور میری قرآت کے خلاف پڑھ رہا ہے، تو میں نے اس سے پوچھا: تمہیں یہ سورت کس نے سکھائی ہے؟ اس نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے، میں نے کہا: تم مجھ سے جدا نہ ہونا جب تک کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہ آ جائیں، میں آپ کے پاس آیا، اور میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ شخص وہ سورت جسے آپ نے مجھے سکھائی ہے میرے طریقے کے خلاف پڑھ رہا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابی! تم پڑھو تو میں نے وہ سورت پڑھی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بہت خوب، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے فرمایا: تم پڑھو! تو اس نے اسے میری قرآت کے خلاف پڑھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بہت خوب، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابی! قرآن سات حرفوں پر نازل کیا گیا ہے، اور ہر ایک درست اور کافی ہے۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: معقل بن عبیداللہ (زیادہ) قوی نہیں ہیں ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 941]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 46)، مسند احمد 5/114، 127، 128 (حسن صحیح)»

وضاحت: ۱؎: مؤلف نے الف لام کے ساتھ «القوی» کا لفظ استعمال کیا ہے، جس سے مراد ائمہ جرح وتعدیل کے نزدیک یہ ہے کہ یہ اتنا قوی نہیں ہیں جتنا صحیح حدیث کے راوی کو ہونا چاہیے یہ بقول حافظ ابن حجر «صدوق یخطیٔ» ہیں، یعنی عدالت میں تو ثقہ ہیں مگر حافظہ کے ذرا کمزور ہیں، متابعات اور شواہد سے تقویت پاکر ان کی یہ روایت حسن صحیح ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

حدیث نمبر: 942
أَخْبَرَنِي يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قال: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، عَنْ أُبَيٍّ قال: مَا حَاكَ فِي صَدْرِي مُنْذُ أَسْلَمْتُ إِلَّا أَنِّي قَرَأْتُ آيَةً وَقَرَأَهَا آخَرُ غَيْرَ قِرَاءَتِي فَقُلْتُ: أَقْرَأَنِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ الْآخَرُ: أَقْرَأَنِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ أَقْرَأْتَنِي آيَةَ كَذَا وَكَذَا. قَالَ:" نَعَمْ" وَقَالَ الْآخَرُ: أَلَمْ تُقْرِئْنِي آيَةَ كَذَا وَكَذَا. قَالَ:" نَعَمْ، إِنَّ جِبْرِيلَ، وَمِيكَائِيلَ عَلَيْهِمَا السَّلَام أَتَيَانِي فَقَعَدَ جِبْرِيلُ عَنْ يَمِينِي وَمِيكَائِيلُ عَنْ يَسَارِي فَقَالَ: جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام اقْرَأِ الْقُرْآنَ عَلَى حَرْفٍ قَالَ:" مِيكَائِيلُ اسْتَزِدْهُ اسْتَزِدْهُ حَتَّى بَلَغَ سَبْعَةَ أَحْرُفٍ فَكُلُّ حَرْفٍ شَافٍ كَافٍ".
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب سے میں نے اسلام قبول کیا تو میرے دل میں کوئی خلش پیدا نہیں ہوئی سوائے اس کے کہ میں نے ایک آیت پڑھی، اور دوسرے شخص نے اسے میری قرآت کے خلاف پڑھا، تو میں نے کہا: مجھے یہ آیت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھائی ہے، تو دوسرے نے بھی کہا: مجھے بھی یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی پڑھائی ہے، بالآخر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور میں نے عرض کیا: اللہ کے نبی! آپ نے مجھے یہ آیت اس اس طرح پڑھائی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، اور دوسرے شخص نے کہا: کیا آپ نے مجھے ایسے ایسے نہیں پڑھایا تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! جبرائیل اور میکائیل علیہما السلام دونوں میرے پاس آئے، جبرائیل میرے داہنے اور میکائیل میرے بائیں طرف بیٹھے، جبرائیل علیہ السلام نے کہا: آپ قرآن ایک حرف پر پڑھا کریں، تو میکائیل نے کہا: آپ اسے (اللہ سے) زیادہ کرا دیجئیے یہاں تک کہ وہ سات حرفوں تک پہنچے، (اور کہا کہ) ہر حرف شافی و کافی ہے۔ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 942]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 8)، مسند احمد 5/114، 122 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

حدیث نمبر: 943
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَثَلُ صَاحِبِ الْقُرْآنِ كَمَثَلِ الْإِبِلِ الْمُعَقَّلَةِ إِذَا عَاهَدَ عَلَيْهَا أَمْسَكَهَا وَإِنْ أَطْلَقَهَا ذَهَبَتْ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صاحب قرآن ۱؎ کی مثال اس شخص کی سی ہے جس کے اونٹ رسی سے بندھے ہوں، جب تک وہ ان کی نگرانی کرتا رہتا ہے تو وہ بندھے رہتے ہیں، اور جب انہیں چھوڑ دیتا ہے تو وہ بھاگ جاتے ہیں۔ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 943]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/فضائل القرآن 23 (5031)، صحیح مسلم/المسافرین 32 (789)، وقد أخرجہ: (تحفة الأشراف: 8368)، موطا امام مالک/القرآن 4 (6)، مسند احمد 2/65، 112، 156 (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: صاحب قرآن سے قرآن کا حافظ مراد ہے، خواہ پورے قرآن کا حافظ ہو یا اس کے کچھ اجزاء کا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

حدیث نمبر: 944
أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ مُوسَى قال: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ قال: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" بِئْسَمَا لِأَحَدِهِمْ أَنْ يَقُولَ نَسِيتُ آيَةَ كَيْتَ وَكَيْتَ بَلْ هُوَ نُسِّيَ اسْتَذْكِرُوا الْقُرْآنَ فَإِنَّهُ أَسْرَعُ تَفَصِّيًا مِنْ صُدُورِ الرِّجَالِ مِنَ النَّعَمِ مِنْ عُقُلِهِ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کتنی بری بات ہے کہ کوئی کہے: میں فلاں فلاں آیت بھول گیا ۱؎، بلکہ اسے کہنا چاہیئے کہ وہ بھلا دیا گیا، تم لوگ قرآن یاد کرتے رہو کیونکہ وہ لوگوں کے سینوں سے رسی سے کھل جانے والے اونٹ سے بھی زیادہ جلدی نکل جاتا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 944]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/فضائل القرآن 23 (5032)، 26 (5039) مختصراً، صحیح مسلم/المسافرین 32 (790)، سنن الترمذی/القراءات 10 (2942)، (تحفة الأشراف: 9295)، مسند احمد 1/382، 417، 423، 429، 438، سنن الدارمی/الرقاق 32 (2787)، فضائل القرآن 4 (3390) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: بھول گیا سے غفلت لاپرواہی ظاہر ہوتی ہے، اس کے برخلاف بھلا دیا گیا میں حسرت و افسوس اور ندامت کا اظہار ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه