الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن نسائي کل احادیث (5761)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن نسائي
كتاب قيام الليل وتطوع النهار
کتاب: تہجد (قیام اللیل) اور دن میں نفل نمازوں کے احکام و مسائل
2. بَابُ: قِيَامِ اللَّيْلِ
2. باب: قیام اللیل (تہجد) کا بیان۔
حدیث نمبر: 1602
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قال: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ، عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ، أَنَّهُ لَقِيَ ابْنَ عَبَّاسٍ فَسَأَلَهُ عَنِ الْوَتْرِ , فَقَالَ:" أَلَا أُنَبِّئُكَ بِأَعْلَمِ أَهْلِ الْأَرْضِ بِوَتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: نَعَمْ , قَالَ: عَائِشَةُ، ائْتِهَا فَسَلْهَا ثُمَّ ارْجِعْ إِلَيَّ فَأَخْبِرْنِي بِرَدِّهَا عَلَيْكَ، فَأَتَيْتُ عَلَى حَكِيمِ بْنِ أَفْلَحَ فَاسْتَلْحَقْتُهُ إِلَيْهَا , فَقَالَ: مَا أَنَا بِقَارِبِهَا إِنِّي نَهَيْتُهَا أَنْ تَقُولَ فِي هَاتَيْنِ الشِّيعَتَيْنِ شَيْئًا فَأَبَتْ فِيهَا إِلَّا مُضِيًّا، فَأَقْسَمْتُ عَلَيْهِ فَجَاءَ مَعِي فَدَخَلَ عَلَيْهَا , فَقَالَتْ لِحَكِيمٍ: مَنْ هَذَا مَعَكَ؟ قُلْتُ: سَعْدُ بْنُ هِشَامٍ , قَالَتْ: مَنْ هِشَامٌ؟ قُلْتُ: ابْنُ عَامِرٍ فَتَرَحَّمَتْ عَلَيْهِ , وَقَالَتْ: نِعْمَ الْمَرْءُ كَانَ عَامِرًا , قَالَ: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ , أَنْبِئِينِي عَنْ خُلُقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَتْ: أَلَيْسَ تَقْرَأُ الْقُرْآنَ , قَالَ: قُلْتُ: بَلَى , قَالَتْ:" فَإِنَّ خُلُقَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقُرْآنُ". (حديث موقوف) (حديث مرفوع) فَهَمَمْتُ أَنْ أَقُومَ فَبَدَا لِي قِيَامُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ , أَنْبِئِينِي عَنْ قِيَامِ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَتْ: أَلَيْسَ تَقْرَأُ هَذِهِ السُّورَةَ يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ؟ قُلْتُ: بَلَى , قَالَتْ: فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ افْتَرَضَ قِيَامَ اللَّيْلِ فِي أَوَّلِ هَذِهِ السُّورَةِ، فَقَامَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ حَوْلًا حَتَّى انْتَفَخَتْ أَقْدَامُهُمْ , وَأَمْسَكَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ خَاتِمَتَهَا اثْنَيْ عَشَرَ شَهْرًا، ثُمَّ أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ التَّخْفِيفَ فِي آخِرِ هَذِهِ السُّورَةِ , فَصَارَ قِيَامُ اللَّيْلِ تَطَوُّعًا بَعْدَ أَنْ كَانَ فَرِيضَةً. (حديث موقوف) (حديث مرفوع) فَهَمَمْتُ أَنْ أَقُومَ فَبَدَا لِي وَتْرُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقُلْتُ: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ , أَنْبِئِينِي عَنْ وَتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَتْ: كُنَّا نُعِدُّ لَهُ سِوَاكَهُ وَطَهُورَهُ فَيَبْعَثُهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِمَا شَاءَ أَنْ يَبْعَثَهُ مِنَ اللَّيْلِ , فَيَتَسَوَّكُ وَيَتَوَضَّأُ وَيُصَلِّي ثَمَانِيَ رَكَعَاتٍ لَا يَجْلِسُ فِيهِنَّ إِلَّا عِنْدَ الثَّامِنَةِ، يَجْلِسُ فَيَذْكُرُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَيَدْعُو ثُمَّ يُسَلِّمُ تَسْلِيمًا يُسْمِعُنَا، ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ بَعْدَ مَا يُسَلِّمُ ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَةً فَتِلْكَ إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً يَا بُنَيَّ، فَلَمَّا أَسَنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَخَذَ اللَّحْمَ أَوْتَرَ بِسَبْعٍ وَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ بَعْدَ مَا سَلَّمَ فَتِلْكَ تِسْعُ رَكَعَاتٍ يَا بُنَيَّ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى صَلَاةً أَحَبَّ أَنْ يَدُومَ عَلَيْهَا، وَكَانَ إِذَا شَغَلَهُ عَنْ قِيَامِ اللَّيْلِ نَوْمٌ أَوْ مَرَضٌ أَوْ وَجَعٌ صَلَّى مِنَ النَّهَارِ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً، وَلَا أَعْلَمُ أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرَأَ الْقُرْآنَ كُلَّهُ فِي لَيْلَةٍ , وَلَا قَامَ لَيْلَةً كَامِلَةً حَتَّى الصَّبَاحَ , وَلَا صَامَ شَهْرًا كَامِلًا غَيْرَ رَمَضَانَ، فَأَتَيْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ فَحَدَّثْتُهُ بِحَدِيثِهَا , فَقَالَ: صَدَقَتْ , أَمَا إِنِّي لَوْ كُنْتُ أَدْخُلُ عَلَيْهَا لَأَتَيْتُهَا حَتَّى تُشَافِهَنِي مُشَافَهَةً , قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: كَذَا وَقَعَ فِي كِتَابِي وَلَا أَدْرِي مِمَّنِ الْخَطَأُ فِي مَوْضِعِ وَتْرِهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ.
سعد بن ہشام سے روایت ہے کہ وہ ابن عباس رضی اللہ عنہم سے ملے تو ان سے وتر کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے کہا: کیا میں تمہیں اہل زمین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وتر کے بارے میں سب سے زیادہ جاننے والے کے بارے میں نہ بتاؤں؟ سعد نے کہا: کیوں نہیں (ضرور بتائیے) تو انہوں نے کہا: وہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں، ان کے پاس جاؤ، اور ان سے سوال کرو، پھر میرے پاس لوٹ کر آؤ، اور وہ تمہیں جو جواب دیں اسے مجھے بتاؤ، چنانچہ میں حکیم بن افلح کے پاس آیا، اور ان سے میں نے اپنے ساتھ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس لے چلنے کے لیے کہا، تو انہوں نے انکار کیا، اور کہنے لگے: میں ان سے نہیں مل سکتا، میں نے انہیں ان دو گروہوں ۱؎ کے متعلق کچھ بولنے سے منع کیا تھا، مگر وہ بولے بغیر نہ رہیں، تو میں نے حکیم بن افلح کو قسم دلائی، تو وہ میرے ساتھ آئے، چنانچہ وہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں داخل ہوئے، تو انہوں نے حکیم سے کہا: تمہارے ساتھ یہ کون ہیں؟ میں نے کہا: سعد بن ہشام ہیں، تو انہوں نے کہا: کون ہشام؟ میں نے کہا: عامر کے لڑکے، تو انہوں نے ان (عامر) کے لیے رحم کی دعا کی، اور کہا: عامر کتنے اچھے آدمی تھے۔ سعد نے کہا: ام المؤمنین! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے بارے میں بتائیے تو انہوں نے کہا: کیا تم قرآن نہیں پڑھتے؟ میں نے کہا: کیوں نہیں، ضرور پڑھتا ہوں، تو انہوں نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق سراپا قرآن تھے، پھر میں نے اٹھنے کا ارادہ کیا تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام اللیل کے متعلق پوچھنے کا خیال آیا، تو میں نے کہا: ام المؤمنین! مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام اللیل کے متعلق بتائیے، انہوں نے کہا: کیا تم سورۃ «يا أيها المزمل‏» نہیں پڑھتے؟ میں نے کہا: کیوں نہیں، ضرور پڑھتا ہوں، تو انہوں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ کے شروع میں قیام اللیل کو فرض قرار دیا، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے ایک سال تک قیام کیا یہاں تک کہ ان کے قدم سوج گئے، اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ کی آخر کی آیتوں کو بارہ مہینے تک روکے رکھا، پھر اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ کے آخر میں تخفیف نازل فرمائی، اور رات کا قیام اس کے بعد کہ وہ فرض تھا نفل ہو گیا، میں نے پھر اٹھنے کا ارادہ کیا، تو میرے دل میں یہ بات آئی کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وتر کے متعلق بھی پوچھ لوں، تو میں نے کہا: ام المؤمنین! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وتر کے بارے میں بھی بتائیے تو انہوں نے کہا: ہم آپ کے لیے مسواک اور وضو کا پانی رکھ دیتے، تو اللہ تعالیٰ رات میں آپ کو جب اٹھانا چاہتا اٹھا دیتا تو آپ مسواک کرتے، اور وضو کرتے، اور آٹھ رکعتیں پڑھتے ۲؎ جن میں آپ صرف آٹھویں رکعت میں بیٹھتے، ذکر الٰہی کرتے، دعا کرتے، پھر سلام پھیرتے جو ہمیں سنائی دیتا، پھر سلام پھیرنے کے بعد آپ بیٹھے بیٹھے دو رکعتیں پڑھتے، پھر ایک رکعت پڑھتے تو اس طرح کل گیارہ رکعتیں ہوئیں۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بوڑھے ہو گئے، اور جسم پر گوشت چڑھ گیا تو وتر کی سات رکعتیں پڑھنے لگے، اور سلام پھیرنے کے بعد بیٹھے بیٹھے دو رکعتیں پڑھتے، تو میرے بیٹے! اس طرح کل نو رکعتیں ہوئیں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی نماز پڑھتے تو آپ کو یہ پسند ہوتا کہ اس پر مداومت کریں، اور جب آپ نیند، بیماری یا کسی تکلیف کی وجہ سے رات کا قیام نہیں کر پاتے تو آپ (اس کے بدلہ میں) دن میں بارہ رکعتیں پڑھتے تھے، اور میں نہیں جانتی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پورا قرآن ایک رات میں پڑھا ہو، اور نہ ہی آپ پوری رات صبح تک قیام ہی کرتے، اور نہ ہی کسی مہینے کے پورے روزے رکھتے، سوائے رمضان کے، پھر میں ابن عباس رضی اللہ عنہم کے پاس آیا، اور میں نے ان سے ان کی یہ حدیث بیان کی، تو انہوں نے کہا: عائشہ رضی اللہ عنہا نے سچ کہا، رہا میں تو اگر میں ان کے یہاں جاتا ہوتا تو میں ان کے پاس ضرور جاتا یہاں تک کہ وہ مجھ سے براہ راست بالمشافہ یہ حدیث بیان کرتیں۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: اسی طرح میری کتاب میں ہے، اور میں نہیں جانتا کہ کس شخص سے آپ کی وتر کی جگہ کے بارے میں غلطی ہوئی ہے ۳؎۔ [سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1602]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المسافرین 18 (746)، سنن ابی داود/الصلاة 316 (1342، 1343، 1344، 1345)، (تحفة الأشراف: 16104)، مسند احمد 6/53، 94، 109، 163، 168، 236، 258، سنن الدارمی/الصلاة 165 (1516) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یعنی معاویہ اور علی رضی اللہ عنہم کے درمیان میں۔ ۲؎: کسی راوی سے وہم ہو گیا ہے، صحیح نو رکعتیں ہے، جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے، آٹھ رکعتیں لگاتار پڑھتے، اور آٹھویں رکعت پر بیٹھ کر نویں رکعت کے لیے اٹھتے۔ ۳؎: وتر کی جگہ میں غلطی اس طرح ہوئی ہے کہ اس حدیث میں بیٹھ کر پڑھی جانے والی دونوں رکعتوں کو اس وتر کی رکعت پر مقدم کر دیا گیا جسے آپ آٹھویں کے بعد پڑھتے تھے، صحیح یہ ہے کہ آپ ان دونوں رکعتوں کو بیٹھ کر وتر کے بعد پڑھتے تھے جیسا کہ مسلم کی روایت میں ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم