جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم (مدینہ میں) نکلے، میں آپ کے ساتھ تھا، آپ ایک انصاری عورت کے پاس آئے، اس نے آپ کے لیے ایک بکری ذبح کی آپ نے (اسے) تناول فرمایا، وہ تر کھجوروں کا ایک طبق بھی لے کر آئی تو آپ نے اس میں سے بھی کھایا، پھر ظہر کے لیے وضو کیا اور ظہر کی نماز پڑھی، آپ نے واپس پلٹنے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ وہ بکری کے بچے ہوئے گوشت میں سے کچھ گوشت لے کر آئی تو آپ نے (اسے بھی) کھایا، پھر آپ نے عصر کی نماز پڑھی اور (دوبارہ) وضو نہیں کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں ابوبکر صدیق، ابن عباس، ابوہریرہ، ابن مسعود، ابورافع، ام الحکم، عمرو بن امیہ، ام عامر، سوید بن نعمان اور ام سلمہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ ابوبکر کی وہ حدیث جسے ابن عباس نے ان سے روایت کیا ہے سنداً ضعیف ہے ابن عباس کی مرفوعاً حدیث زیادہ صحیح ہے اور حفاظ نے ایسے ہی روایت کیا ہے۔ ۲- صحابہ کرام تابعین عظام اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اکثر اہل علم مثلاً سفیان ثوری ابن مبارک شافعی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا اسی پر عمل ہے کہ آگ پر پکی ہوئی چیز سے وضو واجب نہیں، اور یہی رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا آخری فعل ہے، گویا یہ حدیث پہلی حدیث کی ناسخ ہے جس میں ہے کہ آگ کی پکی ہوئی چیز سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 80]
وضاحت: ۱؎: سوائے اونٹ کے گوشت کے، جیسا کہ اگلی حدیث میں آ رہا ہے، اونٹ کے گوشت میں ایک خاص قسم کی بو اور چکناہٹ ہوتی ہے، جس کی وجہ سے ناقض وضو کہا گیا ہے، اس سلسلے میں وارد وضو کو صرف ہاتھ منہ دھو لینے کے معنی میں لینا شرعی الفاظ کو خواہ مخواہ اپنے حقیقی معنی سے ہٹانا ہے۔