الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ترمذي
كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: روزوں کے احکام و مسائل
37. باب مَا جَاءَ فِي وِصَالِ شَعْبَانَ بِرَمَضَانَ
37. باب: روزہ رکھ کر شعبان کو رمضان سے ملا دینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 736
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: " مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ إِلَّا شَعْبَانَ وَرَمَضَانَ ". وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أُمِّ سَلَمَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ أَيْضًا عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: " مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شَهْرٍ أَكْثَرَ صِيَامًا مِنْهُ فِي شَعْبَانَ، كَانَ يَصُومُهُ إِلَّا قَلِيلًا بَلْ كَانَ يَصُومُهُ كُلَّهُ ".
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو لگاتار دو مہینوں کے روزے رکھتے نہیں دیکھا سوائے شعبان ۱؎ اور رمضان کے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ام سلمہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن ہے،
۲- اس باب میں ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے بھی روایت ہے،
۳- اور یہ حدیث ابوسلمہ سے بروایت عائشہ بھی مروی ہے وہ کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزے رکھتے نہیں دیکھا، آپ شعبان کے سارے روزے رکھتے، سوائے چند دنوں کے بلکہ پورے ہی شعبان روزے رکھتے تھے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 736]
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الصیام 33 (2177)، و70 (2354)، سنن ابن ماجہ/الصیام 4 (1648)، (تحفة الأشراف: 18232) (صحیح) وأخرجہ کل من: سنن ابی داود/ الصیام 11 (2336)، وسنن النسائی/الصیام 70 (2355)، و مسند احمد (6/311) من غیر ہذا الطریق۔»

وضاحت: ۱؎: شعبان میں زیادہ روزے رکھنے کی وجہ ایک حدیث میں یہ بیان ہوئی ہے کہ اس مہینہ میں اعمال رب العالمین کی بارگاہ میں پیش کئے جاتے ہیں تو آپ نے اس بات کو پسند فرمایا کہ جب آپ کے اعمال بارگاہ الٰہی میں پیش ہوں تو آپ روزے کی حالت میں ہوں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1648)

حدیث نمبر: 737
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَلِكَ، وَرُوِيَ عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ، أَنَّهُ قَالَ: فِي هَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ: هُوَ جَائِزٌ فِي كَلَامِ الْعَرَبِ إِذَا صَامَ أَكْثَرَ الشَّهْرِ أَنْ يُقَالَ صَامَ الشَّهْرَ كُلَّهُ، وَيُقَالُ: قَامَ فُلَانٌ لَيْلَهُ أَجْمَعَ وَلَعَلَّهُ تَعَشَّى وَاشْتَغَلَ بِبَعْضِ أَمْرِهِ، كَأَنَّ ابْنَ الْمُبَارَكِ قَدْ رَأَى كِلَا الْحَدِيثَيْنِ مُتَّفِقَيْنِ، يَقُولُ: إِنَّمَا مَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ أَنَّهُ كَانَ يَصُومُ أَكْثَرَ الشَّهْرِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رَوَى سَالِمٌ أَبُو النَّضْرِ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ نَحْوَ رِوَايَةِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو.
اس سند سے بھی اسے ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عبداللہ بن مبارک اس حدیث کے بارے میں کہتے ہیں کہ کلام عرب میں یہ جائز ہے کہ جب کوئی مہینے کے اکثر ایام روزہ رکھے تو کہا جائے کہ اس نے پورے مہینے کے روزے رکھے، اور کہا جائے کہ اس نے پوری رات نماز پڑھی حالانکہ اس نے شام کا کھانا بھی کھایا اور بعض دوسرے کاموں میں بھی مشغول رہا۔ گویا ابن مبارک دونوں حدیثوں کو ایک دوسرے کے موافق سمجھتے ہیں۔ اس طرح اس حدیث کا مفہوم یہ ہوا کہ آپ اس مہینے کے اکثر ایام میں روزہ رکھتے تھے،
۲- سالم ابوالنضر اور دوسرے کئی لوگوں نے بھی بطریق ابوسلمہ عن عائشہ محمد بن عمرو کی طرح روایت کی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 737]
تخریج الحدیث: «تفرد المؤلف (تحفة الأشراف: 17756) (حسن صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/الصوم 52 (1969)، وصحیح مسلم/الصیام 34 (1156)، وسنن النسائی/الصیام 34 (2179، 2180)، و35 (2181-2187)، وسنن ابن ماجہ/الصیام 30 (1710)، وط/الصیام 22 (56)، و مسند احمد (6/39، 58، 84، 107، 128، 143، 103، 165، 233، 242، 249، 268)، من غیر ہذا الطریق ویتصرف یسیر فی السیاق»

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، ابن ماجة (1648)