الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ترمذي
كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
5. باب مَا جَاءَ فِي الْحَثِّ عَلَى الْوَصِيَّةِ
5. باب: وصیت کرنے پر ابھارنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 974
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَا حَقُّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ يَبِيتُ لَيْلَتَيْنِ وَلَهُ شَيْءٌ يُوصِي فِيهِ إِلَّا وَوَصِيَّتُهُ مَكْتُوبَةٌ عِنْدَهُ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ أَبِي أَوْفَى. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک مسلمان، جس کی دو راتیں بھی اس حال میں گزریں کہ اس کے پاس وصیت کرنے کی کوئی چیز ہو، اس پر لازم ہے کہ اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی ہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابن ابی اوفی رضی الله عنہ سے بھی حدیث آئی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 974]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الوصایا 1 (1627)، سنن ابن ماجہ/الوصایا 2 (2699)، (تحفة الأشراف: 7944) (صحیح) مسند احمد (2/57، 80)، (ویأتي عند المؤلف فی الوصایا 3 (2118)، وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/الوصایا 1 (2738)، صحیح مسلم/الوصایا (المصدر المذکور)، سنن النسائی/الوصایا 1 (3645، 3646، 3648)، موطا امام مالک/الوصایا 1 (1)، مسند احمد (2/4، 10، 34، 50، 113)، سنن الدارمی/الوصایا 1 (3239)، من غیر ہذا الوجہ۔»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2699)