الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ترمذي
كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: تفسیر قرآن کریم
20. باب وَمِنْ سُورَةِ مَرْيَمَ
20. باب: سورۃ مریم سے بعض آیات کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 3155
حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، وَأَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى نَجْرَانَ، فَقَالُوا لِي: أَلَسْتُمْ تَقْرَءُونَ يَا أُخْتَ هَارُونَ وَقَدْ كَانَ بَيْنَ عِيسَى، وَمُوسَى مَا كَانَ، فَلَمْ أَدْرِ مَا أُجِيبُهُمْ، فَرَجَعْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: " أَلَا أَخْبَرْتَهُمْ أَنَّهُمْ كَانُوا يُسَمُّونَ بِأَنْبِيَائِهِمْ وَالصَّالِحِينَ قَبْلَهُمْ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ ابْنِ إِدْرِيسَ.
مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نجران بھیجا (وہاں نصاریٰ آباد تھے) انہوں نے مجھ سے کہا: کیا آپ لوگ «يا أخت هارون» ۱؎ نہیں پڑھتے؟ جب کہ موسیٰ و عیسیٰ کے درمیان (فاصلہ) تھا جو تھا ۲؎ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ میں انہیں کیا جواب دوں؟ میں لوٹ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ کو بتایا، تو آپ نے فرمایا: تم نے انہیں کیوں نہیں بتا دیا کہ لوگ اپنے سے پہلے کے انبیاء و صالحین کے ناموں پر نام رکھا کرتے تھے ۳؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث صحیح غریب ہے، اور ہم اسے صرف ابن ادریس ہی کی روایت سے جانتے ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3155]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الآداب 1 (2135) (تحفة الأشراف: 11519) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: اے ہارون کی بہن تیرا باپ غلط آدمی نہیں تھا، اور نہ تیری ماں بدکار تھی۔
۲؎: پھر تو یہ بات غلط ہے کیونکہ یہاں خطاب مریم سے ہے مریم کو ہارون کی بہن کہا گیا ہے، ہارون موسیٰ کے بھائی تھے، اور موسیٰ و عیسیٰ علیہما السلام کے زمانوں میں ایک لمبا فاصلہ ہے، پھر مریم کو ہارون کی بہن کہنا کیسے صحیح ہو سکتا ہے؟۔
۳؎: یعنی آیت میں جس ہارون کا ذکر ہے وہ مریم کے بھائی ہیں، اور وہ ہارون جو موسیٰ کے بھائی ہیں وہ اور ہیں۔

قال الشيخ الألباني: حسن مختصر تحفة الودود

حدیث نمبر: 3156
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ إِسْمَاعِيل أَبُو الْمُغِيرَةِ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ سورة مريم آية 39، قَالَ: " يُؤْتَى بِالْمَوْتِ كَأَنَّهُ كَبْشٌ أَمْلَحُ حَتَّى يُوقَفَ عَلَى السُّورِ بَيْنَ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ، فَيُقَالُ: يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ، فَيَشْرَئِبُّونَ، وَيُقَالُ: يَا أَهْلَ النَّارِ، فَيَشْرَئِبُّونَ، فَيُقَالُ: هَلْ تَعْرِفُونَ هَذَا؟ فَيَقُولُونَ: نَعَمْ هَذَا الْمَوْتُ، فَيُضْجَعُ فَيُذْبَحُ فَلَوْلَا أَنَّ اللَّهَ قَضَى لِأَهْلِ الْجَنَّةِ الْحَيَاةَ فِيهَا وَالْبَقَاءَ لَمَاتُوا فَرَحًا، وَلَوْلَا أَنَّ اللَّهَ قَضَى لِأَهْلِ النَّارِ الْحَيَاةَ فِيهَا وَالْبَقَاءَ لَمَاتُوا تَرَحًا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت «وأنذرهم يوم الحسرة» اے نبی! ان کو حسرت و افسوس کے دن سے ڈراؤ (مریم: ۳۹)، پڑھی (پھر) فرمایا: موت چتکبری بھیڑ کی صورت میں لائی جائے گی اور جنت و جہنم کے درمیان دیوار پر کھڑی کر دی جائے گی، پھر کہا جائے گا: اے جنتیو! جنتی گردن اٹھا کر دیکھیں گے، پھر کہا جائے گا: اے جہنمیو! جہنمی گردن اٹھا کر دیکھنے لگیں گے، پوچھا جائے گا: کیا تم اسے پہچانتے ہو؟ وہ سب کہیں گے: ہاں، یہ موت ہے، پھر اسے پہلو کے بل پچھاڑ کر ذبح کر دیا جائے گا، اگر اہل جنت کے لیے زندگی و بقاء کا فیصلہ نہ ہو چکا ہوتا تو وہ خوشی سے مر جاتے، اور اگر اہل جہنم کے لیے جہنم کی زندگی اور جہنم میں ہمیشگی کا فیصلہ نہ ہو چکا ہوتا تو وہ غم سے مر جاتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3156]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تفسیر مریم 1 (4730)، صحیح مسلم/الجنة 13 (2849) (تحفة الأشراف: 4002) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح دون قوله: " فلولا أن الله قضى ... " انظر الحديث (2696، 2683) // (465 - 2696) //

قال الشيخ زبير على زئي: (3156) إسناده ضعيف ¤ النضر بن إسماعيل : ليس بالقوي (تق:7130) وأخرجه البخاري فى صحيحه (4730) من حديث الأعمش بغير ھذا اللفظ وحديثه ھو الصحيح

حدیث نمبر: 3157
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ قَتَادَةَ، فِي قَوْلِهِ: وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا سورة مريم آية 57 قَالَ: حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَمَّا عُرِجَ بِي رَأَيْتُ إِدْرِيسَ فِي السَّمَاءِ الرَّابِعَةِ "، قَالَ: وَفِي الْبَابِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَاهُ سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، وَهَمَّامٌ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ صَعْصَعَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثَ الْمِعْرَاجِ بِطُولِهِ وَهَذَا عِنْدَنَا مُخْتَصَرٌ مِنْ ذَاكَ.
‏‏‏‏ قتادہ آیت «ورفعناه مكانا عليا» ۱؎ کے تعلق سے کہتے ہیں کہ ہم سے انس بن مالک رضی الله عنہ نے بیان کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب مجھے معراج کرائی گئی تو میں نے ادریس علیہ السلام کو چوتھے آسمان پر دیکھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، اور سعید بن ابی عروہ، ہمام اور کئی دیگر راویوں نے قتادہ سے، قتادہ نے انس سے اور انس نے مالک بن صعصعہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث معراج پوری کی پوری روایت کی، اور یہ ہمارے نزدیک اس سے مختصر ہے،
۲- اس باب میں ابو سعید خدری خدری رضی الله عنہ بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3157]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 1304) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 3158
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ ذَرٍّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِجِبْرِيلَ: " مَا يَمْنَعُكَ أَنْ تَزُورَنَا أَكْثَرَ مِمَّا تَزُورُنَا؟ قَالَ: فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةَ وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلا بِأَمْرِ رَبِّكَ سورة مريم آية 64 إِلَى آخِرِ الْآيَةَ "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ عُمَرَ بْنِ ذَرٍّ، نَحْوَهُ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام سے فرمایا: جتنا آپ ہمارے پاس آتے ہیں، اس سے زیادہ آنے سے آپ کو کیا چیز روک رہی ہے؟ اس پر آیت «وما نتنزل إلا بأمر ربك» تمہارے رب کے حکم ہی سے اترتے ہیں اسی کے پاس ان تمام باتوں کا علم ہے جو ہمارے آگے ہیں، جو ہمارے پیچھے ہیں، اور ان کے درمیان ہیں (مریم: ۶۴)، نازل ہوئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- ہم سے حسین بن حریث نے بیان کیا کہ ہم سے وکیع نے بیان کیا اور وکیع نے عمر بن ذر سے اسی جیسی حدیث روایت کی۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3158]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/بدء الخلق 6 (3218)، وتفسیر سورة مریم 5 (4731)، والتوحید 28 (7455) (تحفة الأشراف: 5505) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 3159
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنِ السُّدِّيِّ، قَالَ: سَأَلْتُ مُرَّةَ الْهَمْدَانِيَّ، عَنْ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: وَإِنْ مِنْكُمْ إِلا وَارِدُهَا سورة مريم آية 71 فَحَدَّثَنِي أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ حَدَّثَهُمْ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَرِدُ النَّاسُ النَّارَ ثُمَّ يَصْدُرُونَ مِنْهَا بِأَعْمَالِهِمْ، فَأَوَّلُهُمْ كَلَمْحِ الْبَرْقِ ثُمَّ كَالرِّيحِ ثُمَّ كَحُضْرِ الْفَرَسِ ثُمَّ كَالرَّاكِبِ فِي رَحْلِهِ ثُمَّ كَشَدِّ الرَّجُلِ ثُمَّ كَمَشْيِهِ "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَرَوَاهُ شُعْبَةُ، عَنِ السُّدِّيِّ، فَلَمْ يَرْفَعْهُ.
سدی کہتے ہیں کہ میں نے مرہ ہمدانی سے آیت «وإن منكم إلا واردها» یہ امر یقینی ہے کہ تم میں سے ہر ایک اس پر عبور کرے گا (مریم: ۷۱)، کا مطلب پوچھا تو انہوں نے مجھے یہ حدیث سنائی کہ عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ نے ان لوگوں سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگ جہنم میں جائیں گے، پھر اس سے اپنے اعمال کے سہارے نکلیں گے، پہلا گروہ (جن کے اعمال بہت اچھے ہوں گے) بجلی چمکنے کی سی تیزی سے نکل آئے گا۔ پھر ہوا کی رفتار سے، پھر گھوڑے کے تیز دوڑنے کی رفتار سے، پھر سواری لیے ہوئے اونٹ کی رفتار سے، پھر دوڑتے شخص کی، پھر پیدل چلنے کی رفتار سے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- اس حدیث کو شعبہ نے سدی سے روایت کیا ہے، لیکن انہوں نے اسے مرفوعاً روایت نہیں کیا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3159]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 9554) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (311)

حدیث نمبر: 3160
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ السُّدِّيِّ، عَنْ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، وَإِنْ مِنْكُمْ إِلا وَارِدُهَا سورة مريم آية 71، قَالَ: يَرِدُونَهَا ثُمَّ يَصْدُرُونَ بِأَعْمَالِهِمْ ".
‏‏‏‏ عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ نے «وإن منكم إلا واردها» کے تعلق سے فرمایا: لوگ جہنم میں جائیں گے پھر اپنے اعمال (صالحہ) کے ذریعہ نکل آئیں گے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3160]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف، وانظر ماقبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح موقوف وهو في حكم المرفوع

حدیث نمبر: 3160M
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنِ السُّدِّيِّ بِمِثْلِهِ، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، قُلْتُ لِشُعْبَةَ: إِنَّ إِسْرَائِيلَ حَدَّثَنِي، عَنِ السُّدِّيِّ، عَنْ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ شُعْبَةُ: وَقَدْ سَمِعْتُهُ مِنَ السُّدِّيِّ مَرْفُوعًا وَلَكِنِّي عَمْدًا أَدَعُهُ.
سدی نے مرہ سے اور مرہ نے عبداللہ بن مسعود کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی۔ شعبہ کہتے ہیں: میں نے اسے سدی سے مرفوعاً ہی سنا ہے، لیکن میں جان بوجھ کر چھوڑ دیتا ہوں۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3160M]
تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح موقوف وهو في حكم المرفوع

حدیث نمبر: 3161
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا أَحَبَّ اللَّهُ عَبْدًا نَادَى جِبْرِيلَ إِنِّي قَدْ أَحْبَبْتُ فُلَانًا فَأَحِبَّهُ، قَالَ: فَيُنَادِي فِي السَّمَاءِ ثُمَّ تَنْزِلُ لَهُ الْمَحَبَّةُ فِي أَهْلِ الْأَرْضِ، فَذَلِكَ قَوْلُ اللَّهِ: إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمَنُ وُدًّا سورة مريم آية 96، وَإِذَا أَبْغَضَ اللَّهُ عَبْدًا نَادَى جِبْرِيلَ إِنِّي أَبْغَضْتُ فُلَانًا، فَيُنَادِي فِي السَّمَاءِ ثُمَّ تَنْزِلُ لَهُ الْبَغْضَاءُ فِي الْأَرْضِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَى عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ هَذَا.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ کسی بندے کو پسند کرتا ہے تو جبرائیل کو بلا کر کہتا ہے: میں نے فلاں کو اپنا حبیب بنا لیا ہے تم بھی اس سے محبت کرو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر جبرائیل آسمان میں اعلان کر دیتے ہیں، اور پھر زمین والوں کے دلوں میں محبت پیدا ہو جاتی ہے، یہی ہے اللہ تعالیٰ کے قول: «إن الذين آمنوا وعملوا الصالحات سيجعل لهم الرحمن ودا» اس میں شک نہیں کہ جو لوگ ایمان لاتے ہیں، اور نیک عمل کرتے ہیں اللہ ان کے لیے (لوگوں کے دلوں میں) محبت پیدا کر دے گا (مریم: ۹۶)، کا مطلب و مفہوم۔ اور اللہ جب کسی بندے کو نہیں چاہتا (اس سے بغض و نفرت رکھتا ہے) تو جبرائیل کو بلا کر کہتا ہے، میں فلاں کو پسند نہیں کرتا پھر وہ آسمان میں پکار کر سب کو اس سے باخبر کر دیتے ہیں۔ تو زمین میں اس کے لیے (لوگوں کے دلوں میں) نفرت و بغض پیدا ہو جاتی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اسی جیسی حدیث عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن دینار نے اپنے باپ سے اور ان کے باپ نے ابوصالح سے اور ابوصالح نے ابوہریرہ کے واسطہ سے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3161]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/البر والصلة 48 (2637) (تحفة الأشراف: 12705) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح الضعيفة تحت الحديث (2207)

حدیث نمبر: 3162
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَال: سَمِعْتُ خَبَّابَ بْنَ الْأَرَتِّ، يَقُولُ: " جِئْتُ الْعَاصِي بْنَ وَائِلٍ السَّهْمِيَّ أَتَقَاضَاهُ حَقًّا لِي عِنْدَهُ، فَقَالَ: لَا أُعْطِيكَ حَتَّى تَكْفُرَ بِمُحَمَّدٍ، فَقُلْتُ: لَا حَتَّى تَمُوتَ ثُمَّ تُبْعَثَ، قَالَ: وَإِنِّي لَمَيِّتٌ ثُمَّ مَبْعُوثٌ؟ فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَقَالَ: إِنَّ لِي هُنَاكَ مَالًا وَوَلَدًا فَأَقْضِيكَ فَنَزَلَتْ: أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ بِآيَاتِنَا وَقَالَ لأُوتَيَنَّ مَالا وَوَلَدًا سورة مريم آية 77 الْآيَةَ ".
مسروق کہتے ہیں کہ میں نے خباب بن ارت رضی الله عنہ کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں عاص بن وائل سہمی (کافر) کے پاس اس سے اپنا ایک حق لینے کے لیے گیا، اس نے کہا: جب تک تم محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت) کا انکار نہیں کر دیتے میں تمہیں دے نہیں سکتا۔ میں نے کہا: نہیں، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کا انکار نہیں کر سکتا۔ چاہے تم یہ کہتے کہتے مر جاؤ۔ پھر زندہ ہو پھر یہی کہو۔ اس نے پوچھا کیا: میں مروں گا؟ پھر زندہ کر کے اٹھایا جاؤں گا؟ میں نے کہا: ہاں، اس نے کہا: وہاں بھی میرے پاس مال ہو گا، اولاد ہو گی، اس وقت میں تمہارا حق تمہیں لوٹا دوں گا۔ اس موقع پر آیت «أفرأيت الذي كفر بآياتنا وقال لأوتين مالا وولدا» کیا آپ نے دیکھا اس شخص کو جس نے ہماری آیات کا انکار کیا اور کہا میں مال و اولاد سے بھی نوازا جاؤں گا (مریم: ۷۷)، نازل ہوئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3162]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/البیوع 29 (2091)، والإجارة 15 (2275)، والخصومات 10 (2425)، وتفسیر مریم 4 (4733)، و 5 (4734)، و6 (4735)، صحیح مسلم/المنافقین 4 (2795) (تحفة الأشراف: 3520) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 3162M
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ نَحْوَهُ، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
اس سند سے بھی ابومعاویہ نے اسی طرح اعمش سے روایت کی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3162M]
تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح