ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ لوگ اپنے ہدئیے تحفے بھیجنے کے لیے عائشہ رضی الله عنہا کے دن (باری کے دن) کی تلاش میں رہتے تھے، تو میری سوکنیں سب ام سلمہ رضی الله عنہا کے یہاں جمع ہوئیں، اور کہنے لگیں: ام سلمہ! لوگ اپنے ہدایا بھیجنے کے لیے عائشہ رضی الله عنہا کے دن کی تلاش میں رہتے ہیں اور ہم سب بھی خیر کی اسی طرح خواہاں ہیں جیسے عائشہ ہیں، تو تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جا کر کہو کہ آپ لوگوں سے کہہ دیں کہ آپ جہاں بھی ہوں (یعنی جس کے یہاں بھی باری ہو) وہ لوگ وہیں آپ کو ہدایا بھیجا کریں، چنانچہ ام سلمہ نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، تو آپ نے اعراض کیا، اور ان کی بات کی طرف کوئی توجہ نہیں دی، پھر آپ ان کی طرف پلٹے تو انہوں نے اپنی بات پھر دہرائی اور بولیں: میری سوکنیں کہتی ہیں کہ لوگ اپنے ہدایا کے لیے عائشہ کی باری کی تاک میں رہتے ہیں تو آپ لوگوں سے کہہ دیں کہ آپ جہاں بھی ہوں وہ ہدایا بھیجا کریں، پھر جب انہوں نے تیسری بار آپ سے یہی کہا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ام سلمہ تم عائشہ کے سلسلہ میں مجھے نہ ستاؤ کیونکہ عائشہ کے علاوہ تم سب میں سے کوئی عورت ایسی نہیں جس کے لحاف میں مجھ پر وحی اتری ہو“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- بعض راویوں نے اس حدیث کو حماد بن زید سے، حماد نے ہشام بن عروہ سے اور ہشام نے اپنے باپ عروہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسلاً روایت کیا ہے، ۳- یہ حدیث ہشام بن عروہ کے طریق سے عوف بن حارث سے بھی آئی ہے جسے عوف بن حارث نے رمیثہ کے واسطہ سے ام سلمہ رضی الله عنہا سے اس کا کچھ حصہ روایت کیا ہے، ہشام بن عروہ سے مروی یہ حدیث مختلف طریقوں سے آئی ہے، ۴- سلیمان بن بلال نے بھی بطریق: «هشام بن عروة عن أبيه عن عائشة» حماد بن زید کی حدیث کی طرح روایت کی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3879]
وضاحت: ۱؎: صحیح بخاری میں کعب بن مالک رضی الله عنہ کی توبہ کی قبولیت کی وحی کے بارے میں آیا ہے کہ یہ وحی ام سلمہ رضی الله عنہا کے گھر میں نازل ہوئی، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ اور ام سلمہ رضی الله عنہا ایک ہی لحاف میں تھے، لحاف میں وحی نازل ہونے کی خصوصیت صرف عائشہ رضی الله عنہا کی ہے، اور یہ بہت بڑی فضیلت کی بات ہے۔
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جبرائیل علیہ السلام ایک سبز ریشم کے ٹکڑے پر ان کی تصویر لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور کہا: یہ آپ کی بیوی ہیں، دنیا اور آخرت دونوں میں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف عبداللہ بن عمرو بن علقمہ کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- عبدالرحمٰن بن مہدی نے اس حدیث کو عبداللہ بن عمرو بن علقمہ سے اسی سند سے مرسلاً روایت کیا ہے اور اس میں عائشہ سے روایت کا ذکر نہیں کیا ہے، ۳- ابواسامہ نے اس حدیث کے کچھ حصہ کو ہشام بن عروہ سے، انہوں نے اپنے باپ سے، انہوں نے عائشہ رضی الله عنہا سے انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3880]
وضاحت: ۱؎: ہو سکتا ہے کہ یہ واقعہ تصویر کی حرمت سے پہلے کا ہو، کیونکہ اللہ نے ہر طرح کے جاندار کی تصویر کو حرام کر دیا ہے، یا یہ اللہ کے خاص حکم سے جبرائیل علیہ السلام کا کام تھا جس کا تعلق عام انسانوں سے نہیں ہے، عام انسانوں کے لیے وہی حرمت والا معاملہ ہے، واللہ اعلم۔
۲؎: یہ روایت صحیح بخاری کتاب النکاح باب رقم ۵اور باب رقم: ۳۵ میں آئی ہے، اس میں جبرائیل کی بجائے صرف ”فرشتہ“ کا لفظ ہے۔
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عائشہ! یہ جبرائیل ہیں، تمہیں سلام کہہ رہے ہیں، میں نے عرض کیا: اور انہیں بھی میری طرف سے سلام اور اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہوں، آپ وہ دیکھتے ہیں جو ہم نہیں دیکھ پاتے“(جیسے جبرائیل کو)۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3881]
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جبرائیل تمہیں سلام کہہ رہے ہیں تو میں نے عرض کیا: ان پر سلام اور اللہ کی رحمتیں اور اس کی برکتیں ہوں“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3882]
تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ، وحدیث رقم 2693 (صحیح)»
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب بھی کوئی حدیث مشکل ہوتی اور ہم نے اس کے بارے میں عائشہ رضی الله عنہا سے پوچھا تو ہمیں ان کے پاس اس کے بارے میں کوئی جانکاری ضرور ملی ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3883]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ عائشہ رضی الله عنہا کی وسعت علمی کی دلیل ہے، اور اس سے عام صحابہ پر فضیلت ثابت ہوتی ہے۔
عمرو بن العاص رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں لشکر ذات السلاسل کا امیر مقرر کیا، وہ کہتے ہیں: تو میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! لوگوں میں آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ آپ نے فرمایا: ”عائشہ“، میں نے پوچھا: مردوں میں کون ہے؟ آپ نے فرمایا: ”ان کے باپ“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3885]
وضاحت: ۱؎: پیچھے فاطمہ رضی الله عنہا کے مناقب میں گزرا ہے کہ عورتوں میں فاطمہ اور مردوں میں ان کے شوہر علی رضی الله عنہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ محبوب تھے، لیکن وہ حدیث ضعیف منکر ہے، اور یہ حدیث صحیح ہے، اور دونوں عورتوں اور دونوں مردوں کے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زیادہ محبوب ہونے میں تضاد ہی کیا ہے، یہ سب سے زیادہ محبوب تھے۔
عمرو بن العاص رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! لوگوں میں آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ آپ نے فرمایا: ”عائشہ“، انہوں نے پوچھا: مردوں میں؟ آپ نے فرمایا: ”ان کے والد“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے یعنی اسماعیل کی روایت سے جسے وہ قیس سے روایت کرتے ہیں حسن غریب ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3886]
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عورتوں پر عائشہ کی فضیلت اسی طرح ہے جیسے ثرید کی فضیلت دوسرے کھانوں پر ہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں عائشہ، ابوموسیٰ اشعری سے احادیث آئی ہیں، ۳- عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن معمر انصاری سے مراد ابوطوالہ انصاری مدنی ہیں اور وہ ثقہ ہیں، ان سے مالک بن انس نے بھی روایت کی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3887]
عمرو بن غالب سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عمار بن یاسر رضی الله عنہ کے پاس عائشہ رضی الله عنہا کی عیب جوئی کی تو انہوں نے کہا: ہٹ مردود بدتر، کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوبہ کو اذیت پہنچا رہا ہے؟
امام ترمذی کہتے ہی: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3888]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10364) (ضعیف الإسناد) (سند میں عمرو بن غالب لین الحدیث یعنی ضعیف راوی ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: (3888) إسناده ضعيف ¤ سفيان الثوري و أبو إسحاق عنعنا (تقدما:107،746)
عبداللہ بن زیاد اسدی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عمار بن یاسر رضی الله عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ یہ یعنی عائشہ رضی الله عنہا دنیا اور آخرت دونوں میں آپ کی بیوی ہیں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں علی رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3889]
وضاحت: ۱؎: دیگر ازواج مطہرات کے دنیا میں دوسرے شوہر بھی تھے، جبکہ عائشہ رضی الله عنہا کا آپ کے سوا کوئی شوہر نہ تھا، اور آخرت میں عائشہ رضی الله عنہا کے آپ کی بیوی ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ دیگر ازواج مطہرات آخرت میں آپ کی بیویاں نہیں ہوں گی، عائشہ رضی الله عنہا بھی ہوں گی، وہ بھی ہوں گی۔
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ آپ سے عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! لوگوں میں آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ آپ نے فرمایا: ”عائشہ“، عرض کیا گیا مردوں میں؟ آپ نے فرمایا: ”ان کے والد“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے یعنی انس کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3890]