الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ترمذي
كتاب الطهارة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: طہارت کے احکام و مسائل
42. بَابٌ في الْوُضُوءِ بِالْمُدِّ
42. باب: ایک مد پانی سے وضو کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 56
وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ , وَعَليُّ بْنُ حُجْرٍ , قَالَا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ أَبِي رَيْحَانَةَ، عَنْ سَفِينَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " يَتَوَضَّأُ بِالْمُدِّ وَيَغْتَسِلُ بِالصَّاعِ ". قال: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ , وَجَابِرٍ , وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ سَفِينَةَ، حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو رَيْحَانَةَ اسْمُهُ: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَطَرٍ، وَهَكَذَا رَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: الْوُضُوءَ بِالْمُدِّ وَالْغُسْلَ بِالصَّاعِ , وقَالَ الشَّافِعِيُّ , وَأَحْمَدُ , وَإِسْحَاق: لَيْسَ مَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ عَلَى التَّوَقِّي أَنَّهُ لَا يَجُوزُ أَكْثَرُ مِنْهُ وَلَا أَقَلُّ مِنْهُ وَهُوَ قَدْرُ مَا يَكْفِي.
سفینہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم ایک مد پانی سے وضو اور ایک صاع پانی سے غسل فرماتے تھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- سفینہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عائشہ، جابر اور انس بن مالک رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- بعض اہل علم کی رائے یہی ہے کہ ایک مد پانی سے وضو کیا جائے اور ایک صاع پانی سے غسل، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کا مقصود تحدید نہیں ہے کہ اس سے زیادہ یا کم جائز نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ یہ مقدار ایسی ہے جو کافی ہوتی ہے ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 56]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحیض10 (326) سنن ابن ماجہ/الطہارة 1 (267) (تحفة الأشراف: 4479) مسند احمد (5/222) سنن الدارمی/الطہارة 23 (715) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: مد ایک رطل اور تہائی رطل کا ہوتا ہے اور صاع چار مد کا ہوتا ہے جو موجودہ زمانہ کے وزن کے حساب سے ڈھائی کلو کے قریب ہوتا ہے۔
۲؎: مسلم میں ایک «فرق» پانی سے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے غسل کرنے کی روایت بھی آئی ہے، «فرق» ایک برتن ہوتا تھا جس میں لگ بھگ سات کیلو پانی آتا تھا، ایک روایت میں تو یہ بھی مذکور ہے کہ عائشہ رضی الله عنہا اور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم دونوں ایک «فرق» پانی سے غسل فرمایا کرتے تھے، یہ سب آدمی کے مختلف حالات اور مختلف آدمیوں کے جسموں پر منحصر ہے، ایک ہی آدمی جاڑا اور گرمی، یا بدن کی زیادہ یا کم گندگی کے سبب کم و بیش پانی استعمال کرتا ہے، نیز بعض آدمیوں کے بدن موٹے اور لمبے چوڑے ہوتے ہیں اور بعض آدمیوں کے ناٹے اور دبلے پتلے ہوتے ہیں، اس حساب سے پانی کی ضرورت پڑتی ہے، بہرحال ضرورت سے زیادہ خواہ مخواہ پانی نہ بہائے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (267)