الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ترمذي
كتاب الطهارة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: طہارت کے احکام و مسائل
55. بَابُ مَا جَاءَ فِي بَوْلِ مَا يُؤْكَلُ لَحْمُهُ
55. باب: جس جانور کا گوشت کھانا حلال ہو اس کے پیشاب کا حکم۔
حدیث نمبر: 72
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ , وَقَتَادَةُ , وَثَابِتٌ , عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ نَاسًا مِنْ عُرَيْنَةَ قَدِمُوا الْمَدِينَةَ فَاجْتَوَوْهَا، فَبَعَثَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي إِبِلِ الصَّدَقَةِ، وَقَالَ: " اشْرَبُوا مِنْ أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا " , فَقَتَلُوا رَاعِيَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاسْتَاقُوا الْإِبِلَ وَارْتَدُّوا عَنْ الْإِسْلَامِ، فَأُتِيَ بِهِمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَطَعَ أَيْدِيَهُمْ وَأَرْجُلَهُمْ مِنْ خِلَافٍ وَسَمَرَ أَعْيُنَهُمْ وَأَلْقَاهُمْ بِالْحَرَّةِ. قَالَ أَنَسٌ: فَكُنْتُ أَرَى أَحَدَهُمْ يَكُدُّ الْأَرْضَ بِفِيهِ حَتَّى مَاتُوا، وَرُبَّمَا قَالَ حَمَّادٌ: يَكْدُمُ الْأَرْضَ بِفِيهِ حَتَّى مَاتُوا. قال أبو عيسى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَنَسٍ، وَهُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ، قَالُوا: لَا بَأْسَ بِبَوْلِ مَا يُؤْكَلُ لَحْمُهُ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ قبیلہ عرینہ کے کچھ لوگ مدینہ آئے، انہیں مدینہ کی آب و ہوا راس نہ آئی، چنانچہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے انہیں زکاۃ کے اونٹوں میں بھیج دیا اور فرمایا: تم ان کے دودھ اور پیشاب پیو (وہ وہاں گئے اور کھا پی کر موٹے ہو گئے) تو ان لوگوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کے چرواہے کو مار ڈالا، اونٹوں کو ہانک لے گئے، اور اسلام سے مرتد ہو گئے، انہیں (پکڑ کر) نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس لایا گیا، آپ نے ان کے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کٹوا دیئے، ان کی آنکھوں میں سلائیاں پھیر دیں اور گرم تپتی ہوئی زمین میں انہیں پھینک دیا۔ انس رضی الله عنہ کہتے ہیں: میں نے ان میں سے ایک شخص کو دیکھا تھا کہ (وہ پیاس بجھانے کے لیے) اپنے منہ سے زمین چاٹ رہا تھا یہاں تک کہ وہ اسی حالت میں مر گئے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، اور کئی سندوں سے انس سے مروی ہے،
۲- اکثر اہل علم کا یہی قول ہے کہ جس جانور کا گوشت کھایا جاتا ہو اس کے پیشاب میں کوئی حرج نہیں ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 72]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوضوء 66 (233)، والزکاة 68 (1501)، والجہاد 152 (3018)، والمغازی 36 (492)، وتفسیر المائدة 5 (4610)، والطب 5 (5685)، و6 (5686)، و29 (5727)، والحدود 15 (6802)، و17 (6804)، و18 (6805)، والدیات 22 (6899)، صحیح مسلم/القسامة 13 (1671)، سنن ابی داود/ الحدود 3 (4367، وأیضا364)، سنن النسائی/الطہارة 191 (305)، والمحاربة 7 (4029، 4032)، و8 (4033 - 4040)، و9 (4048)، سنن ابن ماجہ/الطب 30 (3503) (تحفة الأشراف: 317)، مسند احمد (3/107، 161، 163، 170، 177، 198، 205، 233، 287، 290، ویأتی عند المؤلف برقم: 1845و2042 (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یعنی اس کا پیشاب نجس نہیں ضرورت پر علاج میں اس کا استعمال جائز ہے، اور یہی محققین محدثین کا قول ہے، ناپاکی کے قائلین کے دلائل محض قیاسات ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (177) ، الروض النضير (43)

حدیث نمبر: 73
حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ سَهْلٍ الْأَعْرَجُ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ غَيْلَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ الْتَّيْمِيُّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: " إِنَّمَا سَمَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْيُنَهُمْ، لِأَنَّهُمْ سَمَلُوا أَعْيُنَ الرُّعَاةِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا غَرِيبٌ، لَا نَعْلَمُ أَحَدًا ذَكَرَهُ غَيْرَ هَذَا الشَّيْخِ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ زُرَيْعٍ، وَهُوَ مَعْنَى قَوْلِهِ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ سورة المائدة آية 45، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، قَالَ: إِنَّمَا فَعَلَ بِهِمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا، قَبْلَ أَنْ تَنْزِلَ الْحُدُودُ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ان کی آنکھوں میں سلائیاں اس لیے پھیریں کہ ان لوگوں نے بھی چرواہوں کی آنکھوں میں سلائیاں پھیری تھیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے،
۲- اور اللہ تعالیٰ کے فرمان «والجروح قصاص» کا یہی مفہوم ہے، محمد بن سیرین سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ان کے ساتھ یہ معاملہ حدود (سزاؤں) کے نازل ہونے سے پہلے کیا تھا۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 73]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/القسامة 5 (الحدود) 2 (14/1671) سنن النسائی/المحاربة 9 (4048) (تحفة الأشراف: 875) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (177) ، الروض النضير (43)