الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ترمذي
كتاب الطهارة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: طہارت کے احکام و مسائل
64. بَابُ مَا جَاءَ فِي الْوُضُوءِ مِنَ الْقَيْءِ وَالرُّعَافِ
64. باب: قے اور نکسیر سے وضو کا بیان۔
حدیث نمبر: 87
حَدَّثَنَا أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ أَبِي السَّفَرِ وَهُوَ أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْهَمْدَانِيُّ الْكُوفِيُّ، وَإِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ , قَالَ أَبُو عُبَيْدَةَ: حَدَّثَنَا , وَقَالَ إِسْحَاق: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَمْرٍو الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ يَعِيشَ بْنِ الْوَلِيدِ الْمَخْزُومِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " قَاءَ، فَأَفْطَرَ، فَتَوَضَّأ، فَلَقِيتُ ثَوْبَانَ فِي مَسْجِدِ دِمَشْقَ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: صَدَقَ أَنَا صَبَبْتُ لَهُ وَضُوءَهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وقَالَ إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ: مَعْدَانُ بْنُ طَلْحَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَابْنُ أَبِي طَلْحَةَ أَصَحُّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رَأَى غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ مِنَ التَّابِعِينَ، الْوُضُوءَ مِنَ الْقَيْءِ وَالرُّعَافِ , وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق , وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: لَيْسَ فِي الْقَيْءِ وَالرُّعَافِ وُضُوءٌ , وَهُوَ قَوْلُ مَالِكٍ، وَالشَّافِعِيِّ، وَقَدْ جَوَّدَ حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ هَذَا الْحَدِيثَ، وَحَدِيثُ حُسَيْنٍ أَصَحُّ شَيْءٍ فِي هَذَا الْبَابِ، وَرَوَى مَعْمَرٌ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ فَأَخْطَأَ فِيهِ، فَقَالَ: عَنْ يَعِيشَ بْنِ الْوَلِيدِ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ الْأَوْزَاعِيَّ، وَقَالَ: عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، وَإِنَّمَا هُوَ: مَعْدَانُ بْنُ أَبِي طَلْحَةَ.
ابو الدرداء رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے قے کی تو روزہ توڑ دیا اور وضو کیا (معدان کہتے ہیں کہ) پھر میں نے ثوبان رضی الله عنہ سے دمشق کی مسجد میں ملاقات کی اور میں نے ان سے اس بات کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ ابو الدرداء نے سچ کہا، میں نے ہی آپ صلی الله علیہ وسلم پر پانی ڈالا تھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- صحابہ اور تابعین میں سے بہت سے اہل علم کی رائے ہے کہ قے اور نکسیر سے وضو (ٹوٹ جاتا) ہے۔ اور یہی سفیان ثوری، ابن مبارک، احمد، اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے ۱؎ اور بعض اہل علم نے کہا ہے کہ قے اور نکسیر سے وضو نہیں ٹوٹتا یہ مالک اور شافعی کا قول ہے ۲؎،
۲- حدیث کے طرق کو ذکر کرنے کے بعد امام ترمذی فرماتے ہیں کہ حسین المعلم کی حدیث اس باب میں سب سے صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 87]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصوم 32 (2391)، (تحفة الأشراف: 10964)، مسند احمد (5/195، و6/443)، سنن الدارمی/الصوم 24 (1769)، (ولفظ الجمیع ”قاء فأفطر“) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: ان لوگوں کی دلیل باب کی یہی حدیث ہے، لیکن اس حدیث سے استدلال دو باتوں پر موقوف ہے: ایک یہ کہ: حدیث میں لفظ یوں ہو «قاء فتوضأ» قے کی تو وضو کیا جب کہ یہ لفظ محفوظ نہیں ہے، زیادہ تر مصادر حدیث میں زیادہ رواۃ کی روایتوں میں «قاء فأفطر» قے کی تو روزہ توڑ لیا ہے «فأفطر» کے بعد بھی «فتوضأ» کا لفظ نہیں ہے، یا اسی طرح ہے جس طرح اس روایت میں ہے، یعنی «قاء فأفطرفتوضأ» یعنی قے کی تو روزہ توڑ لیا، اور اس کے بعد وضو کیا اور اس لفظ سے وضو کا وجوب ثابت نہیں ہوتا، کیونکہ ایسا ہوتا ہے کہ قے کے بعد آدمی کمزور ہو جاتا ہے اس لیے روزہ توڑ لیتا ہے، اور نظافت کے طور پر وضو کر لیتا ہے، اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم تو اور زیادہ نظافت پسند تھے، نیز یہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا صرف فعل تھا جس کے ساتھ آپ کا کوئی حکم بھی نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ اگر «قاء فتوضأ» کا لفظ ہی محفوظ ہو تو «فتوضأ» کی فاء سبب کے لیے ہو، یعنی یہ ہوا کہ قے کی اس لیے وضو کیا اور یہ بات متعین نہیں ہے، بلکہ یہ فاء تعقیب کے لیے بھی ہو سکتی ہے، یعنی یہ ہوا کہ قے کی اور اس کے بعد وضو کیا۔
۲؎: ان لوگوں کی دلیل جابر رضی الله عنہ کی وہ روایت ہے جسے امام بخاری نے تعلیقاً ذکر کیا ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم غزوہ ذات الرقاع میں تھے کہ ایک شخص کو ایک تیر آ کر لگا اور خون بہنے لگا لیکن اس نے اپنی نماز جاری رکھی اور اسی حال میں رکوع اور سجدہ کرتا رہا ظاہر ہے اس کی اس نماز کا علم نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو یقیناً رہا ہو گا کیونکہ اس کی یہ نماز بحالت پہرہ داری تھی جس کا حکم نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اسے دیا تھا، اس کے باوجود آپ نے اسے وضو کرنے اور نماز کے لوٹانے کا حکم نہیں دیا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (111)