خزیمہ بن ثابت رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے موزوں پر مسح کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ”مسافر کے لیے تین دن ہے اور مقیم کے لیے ایک دن“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یحییٰ بن معین سے منقول ہے کہ انہوں نے مسح کے سلسلہ میں خزیمہ بن ثابت کی حدیث کو صحیح قرار دیا ہے، ۳- اس باب میں علی، ابوبکرۃ، ابوہریرہ، صفوان بن عسال، عوف بن مالک، ابن عمر اور جریر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 95]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الطہارة 60 (157)، سنن ابن ماجہ/الطہارة 86 (553)، (تحفة الأشراف: 3528)، مسند احمد (5/213) (صحیح)»
صفوان بن عسال رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب ہم مسافر ہوتے تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ہمیں حکم دیتے کہ ہم اپنے موزے تین دن اور تین رات تک، پیشاب، پاخانہ یا نیند کی وجہ سے نہ اتاریں، الا یہ کہ جنابت لاحق ہو جائے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- محمد بن اسماعیل (بخاری) کہتے ہیں کہ اس باب میں صفوان بن عسال مرادی کی حدیث سب سے عمدہ ہے، ۳- اکثر صحابہ کرام، تابعین اور ان کے بعد کے فقہاء میں سے اکثر اہل علم مثلاً: سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے کہ مقیم ایک دن اور ایک رات موزوں پر مسح کرے، اور مسافر تین دن اور تین رات، بعض علماء سے مروی ہے کہ موزوں پر مسح کے لیے وقت کی تحدید نہیں کہ (جب تک دل چاہے کر سکتا ہے) یہ مالک بن انس رحمہ اللہ کا قول ہے، لیکن تحدید والا قول زیادہ صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 96]
وضاحت: ۱؎: یہ حدیث موزوں پر مسح کی مدت کی تحدید پر دلالت کرتی ہے: مسافر کے لیے تین دن تین رات ہے اور مقیم کے لیے ایک دن اور ایک رات، یہ مدت وضو کے ٹوٹنے کے وقت سے شمار ہو گی نہ کہ موزہ پہننے کے وقت سے، حدث لاحق ہونے کی صورت میں اگر موزہ اتار لیا جائے تو مسح ٹوٹ جاتا ہے، نیز مدت ختم ہو جانے کے بعد بھی ٹوٹ جاتا ہے۔