ابی بن کعب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ صرف منی (نکلنے) پر غسل واجب ہوتا ہے، یہ رخصت ابتدائے اسلام میں تھی، پھر اس سے روک دیا گیا۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 110]
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- صرف منی نکلنے ہی کی صورت میں غسل واجب ہوتا ہے، یہ حکم ابتدائے اسلام میں تھا، بعد میں یہ حکم منسوخ ہو گیا، ۳- اسی طرح صحابہ کرام میں سے کئی لوگوں سے جن میں ابی بن کعب اور رافع بن خدیج رضی الله عنہما بھی شامل ہیں، مروی ہے، ۴- اور اسی پر اکثر اہل علم کا عمل ہے، کہ جب آدمی اپنی بیوی کی (شرمگاہ) میں جماع کرے تو دونوں (میاں بیوی) پر غسل واجب ہو جائے گا گرچہ ان دونوں کو انزال نہ ہوا ہو۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 111]
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ”منی نکلنے سے ہی غسل واجب ہوتا ہے“ کا تعلق احتلام سے ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
اس باب میں عثمان بن عفان، علی بن ابی طالب، زبیر، طلحہ، ابوایوب اور ابوسعید رضی الله عنہم نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے مرفوعاً روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا منی نکلنے ہی پر غسل واجب ہوتا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 112]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 6080) (ضعیف الإسناد) (سند میں شریک بن عبداللہ القاضی ضعیف ہیں، اور یہ موقوف ہے، لیکن اصل حدیث إنما الماء من الماء مرفوعا صحیح ہے، جیسا کہ اوپر گزرا، اور مؤلف نے باب میں وارد احادیث کا ذکر کیا، لیکن مرفوع میں (في الاحتلام) کا لفظ نہیں ہے)»
وضاحت: ۱؎: یہ توجیہ حدیث «إنما الماء من الماء»”انزال ہونے پر غسل واجب ہے“ کی ایک دوسری توجیہ ہے، یعنی خواب میں ہمبستری دیکھے اور کپڑے میں منی دیکھے تب غسل واجب ہے ورنہ نہیں، مگر بقول علامہ البانی ابن عباس رضی الله عنہما کا یہ قول بھی بغیر «في الاحتلام» کے ہے، یہ لفظ ان کے قول سے بھی ثابت نہیں ہے کیونکہ یہ سند ضعیف ہے، اور «إنما الماء من الماء» شواہد کی بنا پر صحیح ہے۔
قال الشيخ الألباني: (حديث ابن عباس) صحيح دون قوله " فى الاحتلام " وهو ضعيف الإسناد موقوف، (حديث أبي سعيد) صحيح (حديث أبي سعيد) ، ابن ماجة (606 - 607)
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف ¤ شريك القاضي مدلس وعنعن . (ضعيف سنن أبي داود : 266)