الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ترمذي
كتاب الصلاة
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
10. باب مَا جَاءَ فِي وَقْتِ الْمَغْرِبِ
10. باب: مغرب کے وقت کا بیان۔
حدیث نمبر: 164
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيل، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ، قَالَ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الْمَغْرِبَ إِذَا غَرَبَتِ الشَّمْسُ وَتَوَارَتْ بِالْحِجَابِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ , وَالصُّنَابِحِيِّ , وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ , وَأَنَسٍ , وَرَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ , وَأَبِي أَيُّوبَ , وَأُمِّ حَبِيبَةَ , وَعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ , وَابْنِ عَبَّاسٍ , وَحَدِيثُ الْعَبَّاسِ قَدْ رُوِيَ مَوْقُوفًا عَنْهُ، وَهُوَ أَصَحُّ، وَالصُّنَابِحِيُّ لَمْ يَسْمَعْ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ صَاحِبُ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ مِنَ التَّابِعِينَ، اخْتَارُوا تَعْجِيلَ صَلَاةِ الْمَغْرِبِ وَكَرِهُوا تَأْخِيرَهَا، حَتَّى قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: لَيْسَ لِصَلَاةِ الْمَغْرِبِ إِلَّا وَقْتٌ وَاحِدٌ، وَذَهَبُوا إِلَى حَدِيثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيْثُ صَلَّى بِهِ جِبْرِيلُ، وَهُوَ قَوْلُ ابْنِ الْمُبَارَكِ , وَالشَّافِعِيِّ.
سلمہ بن الاکوع رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم مغرب اس وقت پڑھتے جب سورج ڈوب جاتا اور پردے میں چھپ جاتا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- سلمہ بن الاکوع والی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں جابر، صنابحی، زید بن خالد، انس، رافع بن خدیج، ابوایوب، ام حبیبہ، عباس بن عبدالمطلب اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- عباس رضی الله عنہ کی حدیث ان سے موقوفاً روایت کی گئی ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے،
۴- اور صنابحی نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے نہیں سنا ہے، وہ تو ابوبکر رضی الله عنہ کے دور کے ہیں،
۵- اور یہی قول صحابہ کرام اور ان کے بعد تابعین میں سے اکثر اہل علم کا ہے، ان لوگوں نے نماز مغرب جلدی پڑھنے کو پسند کیا ہے اور اسے مؤخر کرنے کو مکروہ سمجھا ہے، یہاں تک کہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ مغرب کا ایک ہی وقت ہے ۲؎، یہ تمام حضرات نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی اس حدیث کی طرف گئے ہیں جس میں ہے کہ جبرائیل نے آپ کو نماز پڑھائی اور یہی ابن مبارک اور شافعی کا قول ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 164]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المواقیت 18 (561)، صحیح مسلم/المساجد 38 (636)، سنن ابی داود/ الصلاة 6 (417)، سنن ابن ماجہ/الصلاة 7 (688)، (تحفة الأشراف: 4535) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مغرب کا وقت سورج ڈوبنے کے بعد شروع ہوتا ہے اور اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ مغرب میں تاخیر نہیں کرنی چاہیئے بلکہ اسے اول وقت ہی میں ادا کرنا چاہیئے۔
۲؎: سلف کا اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ مغرب کا وقت «ممتد» پھیلا ہوا ہے یا غیر ممتد، جمہور کے نزدیک سورج ڈوبنے سے لے کر شفق ڈوبنے تک پھیلا ہوا ہے، اور شافعی اور ابن مبارک کی رائے ہے کہ مغرب کا صرف ایک ہی وقت ہے اور وہ اول وقت ہے، ان لوگوں کی دلیل جبرائیل علیہ السلام والی روایت ہے جس میں ہے کہ دونوں دنوں میں آپ نے مغرب سورج ڈوبنے کے فوراً بعد پڑھائی اور جمہور کی دلیل صحیح مسلم میں موجود ابوموسیٰ کی روایت ہے، اس میں ہے «ثم أخر المغرب حتى كان عند سقوط الشفق» جمہور کی رائے ہی زیادہ صحیح ہے،
جمہور نے جبرائیل والی روایت کا جواب تین طریقے سے دیا ہے:
۱- اس میں صرف افضل وقت کے بیان پر اکتفا کیا گیا ہے، وقت جواز کو بیان نہیں گیا،
۲- جبرائیل کی روایت متقدم ہے مکی دور کی اور مغرب کا وقت شفق ڈوبنے تک ممتد ہونے کی روایت متاخر ہے مدنی دور کی،
۳- یہ روایت جبرائیل والی روایت سے سند کے اعتبار سے زیادہ صحیح ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (688)