الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ترمذي
كتاب الصلاة
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
15. باب مَا جَاءَ فِي الْوَقْتِ الأَوَّلِ مِنَ الْفَضْلِ
15. باب: اول وقت میں نماز پڑھنے کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 170
حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ الْعُمَرِيِّ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ غَنَّامٍ، عَنْ عَمَّتِهِ أُمِّ فَرْوَةَ، وَكَانَتْ مِمَّنْ بَايَعَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّ الْأَعْمَالِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: " الصَّلَاةُ لِأَوَّلِ وَقْتِهَا ".
قاسم بن غنام کی پھوپھی ام فروہ رضی الله عنہا (جنہوں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے بیعت کی تھی) کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا گیا: کون سا عمل سب سے افضل ہے؟ تو آپ نے فرمایا: اول وقت میں نماز پڑھنا۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 170]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 9 (426)، (تحفة الأشراف: 1841) (صحیح) (سند میں قاسم مضطرب الحدیث ہیں، اور عبداللہ العمری ضعیف ہیں، لیکن شواہد سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے، ابن مسعود رضی الله عنہ کی اس معنی کی روایت صحیحین میں موجود ہے جو مؤلف کے یہاں رقم 173 پر آ رہی ہے۔)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (452) ، المشكاة (607)

حدیث نمبر: 171
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْجُهَنِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَرَ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَهُ: " يَا عَلِيُّ ثَلَاثٌ لَا تُؤَخِّرْهَا: الصَّلَاةُ إِذَا آنَتْ، وَالْجَنَازَةُ إِذَا حَضَرَتْ، وَالْأَيِّمُ إِذَا وَجَدْتَ لَهَا كُفْئًا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ حَسَنٌ.
علی بن ابی طالب رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: علی! تین چیزوں میں دیر نہ کرو: نماز کو جب اس کا وقت ہو جائے، جنازہ کو جب آ جائے، اور بیوہ عورت (کے نکاح کو) جب تمہیں اس کا کوئی کفو (ہمسر) مل جائے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 171]
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الجنائز 18 (1486)، (تحفة الأشراف: 10251)، وانظرحم (1/105)، (ویأتی عند المؤلف فی الجنائز برقم: 1075) (ضعیف) (سند میں سعید بن عبد اللہ جہنی لین الحدیث ہیں، اور ان کی عمر بن علی سے ملاقات نہیں ہے، جیسا کہ مؤلف نے خود کتاب الجنائز میں تصریح کی ہے، مگر حدیث کا معنی صحیح ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (605) ، // ضعيف الجامع الصغير - بترتيبى - برقم (2563) ويأتى برقم (182 / 1087) //

حدیث نمبر: 172
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ الْوَلِيدِ الْمَدَنِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْوَقْتُ الْأَوَّلُ مِنَ الصَّلَاةِ رِضْوَانُ اللَّهِ، وَالْوَقْتُ الْآخِرُ عَفْوُ اللَّهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا غَرِيبٌ، وَقَدْ رَوَى ابْنُ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ، قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ , وَابْنِ عُمَرَ , وَعَائِشَةَ , وَابْنِ مَسْعُودٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أُمِّ فَرْوَةَ لَا يُرْوَى إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ الْعُمَرِيِّ، وَلَيْسَ هُوَ بِالْقَوِيِّ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ، وَاضْطَرَبُوا عَنْهُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ وَهُوَ صَدُوقٌ، وَقَدْ تَكَلَّمَ فِيهِ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: نماز اول وقت میں اللہ کی رضا مندی کا موجب ہے اور آخری وقت میں اللہ کی معافی کا موجب ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے،
۲- ابن عباس رضی الله عنہ نے بھی نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کی ہے،
۳- اور اس باب میں علی، ابن عمر، عائشہ اور ابن مسعود رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- ام فروہ کی (اوپر والی) حدیث (نمبر: ۱۷۰) عبداللہ بن عمر عمری ہی سے روایت کی جاتی ہے اور یہ محدثین کے نزدیک قوی نہیں ہیں، اس حدیث میں لوگ ان سے روایت کرنے میں اضطراب کا شکار ہیں اور وہ صدوق ہیں، یحییٰ بن سعید نے ان کے حفظ کے تعلق سے ان پر کلام کیا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 172]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 7731) (موضوع) (سند میں عبداللہ بن عمر العمری ضعیف ہیں اور یعقوب بن ولید مدنی کو ائمہ نے کذاب کہا ہے)»

قال الشيخ الألباني: موضوع، الإرواء (259) ، المشكاة (606) ، // ضعيف الجامع (6164) //

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف جداً ( موضوع ) ¤ يعقوب بن الوليد : كذبه أحمد وغيره (تق:7835)

حدیث نمبر: 173
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْفَزَارِيُّ، عَنْ أَبِي يَعْفُورٍ، عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ الْعَيْزَارِ، عَنْ أَبِي عَمْرٍو الشَّيْبَانِيِّ، أَنَّ رَجُلًا، قَالَ لِابْنِ مَسْعُودٍ: أَيُّ الْعَمَلِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: سَأَلْتُ عَنْهُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " الصَّلَاةُ عَلَى مَوَاقِيتِهَا " , قُلْتُ: وَمَاذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " وَبِرُّ الْوَالِدَيْنِ " , قُلْتُ: وَمَاذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " وَالْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَى الْمَسْعُودِيُّ , وَشُعْبَةُ، وَسُلَيْمَانُ هُوَ أَبُو إِسْحَاق الشَّيْبَانِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ الْعَيْزَارِ هَذَا الْحَدِيثَ.
ابوعمرو شیبانی سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ابن مسعود رضی الله عنہ سے پوچھا: کون سا عمل سب سے اچھا ہے؟ انہوں نے بتلایا کہ میں نے اس کے بارے میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ نے فرمایا: نماز کو اس کے وقت پر پڑھنا۔ میں نے عرض کیا: اور کیا ہے؟ اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا، میں نے عرض کیا: (اس کے بعد) اور کیا ہے؟ اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 173]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المواقیت 5 (527)، والجہاد 1 (2782)، والأدب 1 (5970)، والتوحید 48 (7534)، صحیح مسلم/الإیمان 36 (85)، سنن النسائی/المواقیت 51 (611)، (تحفة الأشراف: 9232)، مسند احمد (1/409، 410، 418، 421، 444، 448، 451) ویأتی عند المؤلف برقم: 1898 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 174
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ، عَنْ إِسْحَاق بْنِ عُمَرَ، عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: " مَا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةً لِوَقْتِهَا الْآخِرِ مَرَّتَيْنِ حَتَّى قَبَضَهُ اللَّهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ بِمُتَّصِلٍ، قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَالْوَقْتُ الْأَوَّلُ مِنَ الصَّلَاةِ أَفْضَلُ , وَمِمَّا يَدُلُّ عَلَى فَضْلِ أَوَّلِ الْوَقْتِ عَلَى آخِرِهِ اخْتِيَارُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ , وَعُمَرَ، فَلَمْ يَكُونُوا يَخْتَارُونَ إِلَّا مَا هُوَ أَفْضَلُ وَلَمْ يَكُونُوا يَدَعُونَ الْفَضْلَ، وَكَانُوا يُصَلُّونَ فِي أَوَّلِ الْوَقْتِ. قَالَ: حَدَّثَنَا بِذَلِكَ أَبُو الْوَلِيدِ الْمَكِّيُّ، عَنْ الشَّافِعِيِّ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے کوئی نماز اس کے آخری وقت میں دو بار نہیں پڑھی یہاں تک کہ اللہ نے آپ کو وفات دے دی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند متصل نہیں ہے،
۲- شافعی کہتے ہیں: نماز کا اول وقت افضل ہے اور جو چیزیں اول وقت کی افضیلت پر دلالت کرتی ہیں من جملہ انہیں میں سے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم، ابوبکر، اور عمر رضی الله عنہما کا اسے پسند فرمانا ہے۔ یہ لوگ اسی چیز کو معمول بناتے تھے جو افضل ہو اور افضل چیز کو نہیں چھوڑتے تھے۔ اور یہ لوگ نماز کو اول وقت میں پڑھتے تھے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 174]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 15922) (حسن) (سند میں اسحاق بن عمر ضعیف ہیں، مگر شواہد سے تقویت پا کر یہ حدیث حسن لغیرہ ہے)»

قال الشيخ الألباني: حسن، المشكاة (608)