الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ترمذي
كتاب الصلاة
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
21. باب مَا جَاءَ فِي صَلاَةِ الْوُسْطَى أَنَّهَا الْعَصْرُ وَقَدْ قِيلَ إِنَّهَا الظُّهْرُ
21. باب: صلاۃ وسطیٰ ہی صلاۃ عصر ہے، ایک قول یہ بھی ہے کہ وہ صلاۃ ظہر ہے۔
حدیث نمبر: 181
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ , وَأَبُو النَّضْرِ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ، عَنْ زُبَيْدٍ , عَنْ مُرَّةَ الْهَمْدَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " صَلَاةُ الْوُسْطَى صَلَاةُ الْعَصْرِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: «صلاة وسطیٰ» عصر کی صلاۃ ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 181]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساجد 36 (628)، سنن ابن ماجہ/الصلاة 6 (686)، (تحفة الأشراف: 9548)، مسند احمد (1/404، 456)، (ویأتی عند المؤلف فی تفسیر البقرة (2985) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: «وسطیٰ» یہ اس لیے ہے کہ یہ دن اور رات کی نمازوں کی بیچ میں واقع ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (634)

حدیث نمبر: 182
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " صَلَاةُ الْوُسْطَى صَلَاةُ الْعَصْرِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ , وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ , وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ , وَعَائِشَةَ , وَحَفْصَةَ , وَأَبِي هُرَيْرَةَ , وَأَبِي هَاشِمِ بْنِ عُتْبَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: قَالَ مُحَمَّدٌ: قَالَ عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ: حَدِيثُ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ حَدِيثٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ سَمِعَ مِنْهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ سَمُرَةَ فِي صَلَاةِ الْوُسْطَى حَسَنٌ وصَحِيحٌ، وَهُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ الْعُلَمَاءِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، وقَالَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ , وَعَائِشَةُ: صَلَاةُ الْوُسْطَى صَلَاةُ الظُّهْرِ، وقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ , وَابْنُ عُمَرَ: صَلَاةُ الْوُسْطَى صَلَاةُ الصُّبْحِ. حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا قُرَيْشُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ الشَّهِيدِ , قَالَ: قَالَ لِي مُحَمَّدُ بْنُ سِيرِينَ: سَلِ الْحَسَنَ مِمَّنْ سَمِعَ حَدِيثَ الْعَقِيقَةِ، فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ: سَمِعْتُهُ مِنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وأَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمَدِينِيِّ، عَنْ قُرَيْشِ بْنِ أَنَسٍ بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ مُحَمَّدٌ: قَالَ عَلِيٌّ: وَسَمَاعُ الْحَسَنِ مِنْ سَمُرَةَ صَحِيحٌ، وَاحْتَجَّ بِهَذَا الْحَدِيثِ.
سمرہ بن جندب رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: «صلاة وسطیٰ» عصر کی صلاۃ ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- «صلاة وسطیٰ» کے سلسلہ میں سمرہ کی حدیث حسن ہے،
۲- اس باب میں علی، عبداللہ بن مسعود، زید بن ثابت، عائشہ، حفصہ، ابوہریرہ اور ابوہاشم بن عقبہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ علی بن عبداللہ (ابن المدینی) کا کہنا ہے: حسن بصری کی حدیث جسے انہوں نے سمرہ بن جندب سے روایت کیا ہے، صحیح حدیث ہے، جسے انہوں نے سمرۃ سے سنا ہے،
۴- صحابہ کرام اور ان کے علاوہ دیگر لوگوں میں سے اکثر اہل علم کا یہی قول ہے، زید بن ثابت اور عائشہ رضی الله عنہا کا کہنا ہے کہ «صلاة وسطیٰ» ظہر کی صلاۃ ہے، ابن عباس اور ابن عمر رضی الله عنہم کہتے ہیں کہ «صلاة وسطیٰ» صبح کی صلاۃ (یعنی فجر) ہے ۲؎،
۵- وہ حبیب بن شہید کہتے ہیں کہ مجھ سے محمد بن سیرین نے کہا کہ تم حسن بصری سے پوچھو کہ انہوں نے عقیقہ کی حدیث کس سے سنی ہے؟ تو میں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں نے اسے سمرہ بن جندب سے سنا ہے،
۶- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ علی ابن المدینی نے کہا ہے کہ سمرہ رضی الله عنہ سے حسن کا سماع صحیح ہے اور انہوں نے اسی حدیث سے دلیل پکڑی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 182]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف، ویأتی عندہ فی تفسیر البقرة (2983)، (تحفة الأشراف: 4602) (صحیح) (سابقہ حدیث سے تقویت پا کر یہ صحیح لغیرہ ہے، حسن بصری کے سمرہ رضی الله عنہ سے سماع میں اختلاف ہے، نیز قتادہ اور حسن بصری مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے)»

وضاحت: ۱؎: «صلاۃ وسطیٰ» سے کون سی صلاۃ مراد ہے اس بارے میں مختلف حدیثیں وارد ہیں صحیح قول یہی ہے کہ اس سے مراد صلاۃ عصر ہے یہی اکثر صحابہ اور تابعین کا مذہب ہے، امام ابوحنیفہ، امام احمد بھی اسی طرف گئے ہیں۔
۲؎: امام مالک اور امام شافعی کا مشہور مذہب یہی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح (بما قبله) ، المشكاة (634)