الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ترمذي
كتاب الصلاة
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
27. باب مَا جَاءَ فِي بَدْءِ الأَذَانِ
27. باب: اذان کی ابتداء کا بیان۔
حدیث نمبر: 189
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْأُمَوِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَارِثِ التَّيْمِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: لَمَّا أَصْبَحْنَا أَتَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ بِالرُّؤْيَا، فَقَالَ: " إِنَّ هَذِهِ لَرُؤْيَا حَقٍّ، فَقُمْ مَعَ بِلَالٍ فَإِنَّهُ أَنْدَى وَأَمَدُّ صَوْتًا مِنْكَ فَأَلْقِ عَلَيْهِ مَا قِيلَ لَكَ وَلْيُنَادِ بِذَلِكَ " , قَالَ: فَلَمَّا سَمِعَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ نِدَاءَ بِلَالٍ بِالصَّلَاةِ خَرَجَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَجُرُّ إِزَارَهُ، وَهُوَ يَقُولُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَقَدْ رَأَيْتُ مِثْلَ الَّذِي قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَلِلَّهِ الْحَمْدُ فَذَلِكَ أَثْبَتُ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق أَتَمَّ مِنْ هَذَا الْحَدِيثِ وَأَطْوَلَ، وَذَكَرَ فِيهِ قِصَّةَ الْأَذَانِ مَثْنَى مَثْنَى وَالْإِقَامَةِ مَرَّةً مَرَّةً، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدٍ هُوَ ابْنُ عَبْدِ رَبِّهِ، وَيُقَالُ: ابْنُ عَبْدِ رَبٍّ، وَلَا نَعْرِفُ لَهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا يَصِحُّ إِلَّا هَذَا الْحَدِيثَ الْوَاحِدَ فِي الْأَذَانِ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدِ بْنِ عَاصِمٍ الْمَازِنِيُّ لَهُ أَحَادِيثُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ عَمُّ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ.
عبداللہ بن زید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب ہم نے (مدینہ منورہ میں ایک رات) صبح کی تو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور میں نے آپ کو اپنا خواب بتایا ۱؎ تو آپ نے فرمایا: یہ ایک سچا خواب ہے، تم اٹھو بلال کے ساتھ جاؤ وہ تم سے اونچی اور لمبی آواز والے ہیں۔ اور جو تمہیں بتایا گیا ہے، وہ ان پر پیش کرو، وہ اسے زور سے پکار کر کہیں، جب عمر بن خطاب رضی الله عنہ نے بلال رضی الله عنہ کی اذان سنی تو اپنا تہ بند کھینچتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ نبی بنا کر بھیجا ہے، میں نے (بھی) اسی طرح دیکھا ہے جو انہوں نے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کا شکر ہے، یہ بات اور پکی ہو گئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عبداللہ بن زید رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابن عمر رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے،
۳- اور ابراہیم بن سعد نے یہ حدیث محمد بن اسحاق سے اس سے بھی زیادہ کامل اور زیادہ لمبی روایت کی ہے۔ اور اس میں انہوں نے اذان کے کلمات کو دو دو بار اور اقامت کے کلمات کو ایک ایک بار کہنے کا واقعہ ذکر کیا ہے،
۴- عبداللہ بن زید ہی ابن عبدربہ ہیں اور انہیں ابن عبدرب بھی کہا جاتا ہے، سوائے اذان کے سلسلے کی اس ایک حدیث کے ہمیں نہیں معلوم کہ ان کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی اور بھی حدیث صحیح ہے، البتہ عبداللہ بن زید بن عاصم مازنی کی کئی حدیثیں ہیں جنہیں وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، اور یہ عباد بن تمیم کے چچا ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 189]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 28 (499)، سنن ابن ماجہ/الأذان 1 (706)، (تحفة الأشراف: 5309)، مسند احمد (4/42)، سنن الدارمی/الصلاة 3 (1224) (حسن)»

وضاحت: ۱؎: یہ اس وقت کی بات ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے درمیان ایک رات نماز کے لیے لوگوں کو بلانے کی تدابیر پر گفتگو ہوئی، اسی رات عبداللہ بن زید رضی الله عنہ نے خواب دیکھا اور آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا (دیکھئیے اگلی حدیث)۔

قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (706)

حدیث نمبر: 190
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ النَّضْرِ بْنِ أَبِي النَّضْرِ، حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: كَانَ الْمُسْلِمُونَ حِينَ قَدِمُوا الْمَدِينَةَ يَجْتَمِعُونَ فَيَتَحَيَّنُونَ الصَّلَوَاتِ وَلَيْسَ يُنَادِي بِهَا أَحَدٌ، فَتَكَلَّمُوا يَوْمًا فِي ذَلِكَ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: اتَّخِذُوا نَاقُوسًا مِثْلَ نَاقُوسِ النَّصَارَى، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: اتَّخِذُوا قَرْنًا مِثْلَ قَرْنِ الْيَهُودِ، قَالَ: فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: أَوَلَا تَبْعَثُونَ رَجُلًا يُنَادِي بِالصَّلَاةِ؟ قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا بِلَالُ قُمْ فَنَادِ بِالصَّلَاةِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عُمَرَ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جس وقت مسلمان مدینہ آئے تو وہ اکٹھے ہو کر اوقات نماز کا اندازہ لگاتے تھے، کوئی نماز کے لیے پکار نہ لگاتا تھا، ایک دن ان لوگوں نے اس سلسلے میں گفتگو کی ۱؎ چنانچہ ان میں سے بعض لوگوں نے کہا: نصاریٰ کے ناقوس کی طرح کوئی ناقوس بنا لو، بعض نے کہا کہ تم یہودیوں کے قرن کی طرح کوئی قرن (یعنی کسی جانور کا سینگ) بنا لو۔ ابن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں: اس پر عمر بن خطاب رضی الله عنہ نے کہا: کیا تم کوئی آدمی نہیں بھیج سکتے جو نماز کے لیے پکارے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلال اٹھو جاؤ نماز کے لیے پکارو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث ابن عمر رضی الله عنہما کی (اس) روایت سے حسن صحیح غریب ہے۔ (جسے بخاری و مسلم اور دیگر محدثین نے روایت کیا ہے) ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 190]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 1 (604)، صحیح مسلم/الصلاة 1 (377)، سنن النسائی/الأذان 1 (627)، (تحفة الأشراف: 7775)، مسند احمد (2/148) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یہ گفتگو مدینہ میں صحابہ کرام سے ہجرت کے پہلے سال ہوئی تھی، اس میں بعض لوگوں نے نماز کے لیے ناقوس بجانے کا اور بعض نے اونچائی پر آگ روشن کرنے کا اور بعض نے «بوق» بگل استعمال کرنے کا مشورہ دیا تھا، اسی دوران عمر کی یہ تجویز آئی کہ کسی کو نماز کے لیے پکارنے پر مامور کر دیا جائے، چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ رائے پسند آئی اور آپ نے بلال کو باواز بلند «الصلاة جامعة» کہنے کا حکم دیا۔ اس کے بعد عبداللہ بن زید رضی الله عنہ نے خواب میں اذان کے کلمات کسی سے سیکھے اور جا کر خواب بیان کیا، اسی کے بعد موجودہ اذان رائج ہوئی۔
۲؎: دیکھئیے صحیح البخاری حدیث ۶۰۴وصحیح مسلم حدیث ۸۳۷۔

قال الشيخ الألباني: صحيح