الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ترمذي
كتاب الصلاة
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
29. باب مَا جَاءَ فِي إِفْرَادِ الإِقَامَةِ
29. باب: اقامت اکہری کہنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 193
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ , وَيَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: " أُمِرَ بِلَالٌ أَنْ يَشْفَعَ الْأَذَانَ وَيُوتِرَ الْإِقَامَةَ ". وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ أَنَسٍ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ قَوْلُ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ، وَبِهِ يَقُولُ مَالِكٌ , وَالشَّافِعِيُّ , وَأَحْمَدُ , وَإِسْحَاقُ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ بلال رضی الله عنہ کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ اذان دہری اور اقامت اکہری کہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- انس رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابن عمر رضی الله عنہما سے بھی حدیث آئی ہے،
۳- صحابہ کرام اور تابعین میں سے بعض اہل علم کا یہی قول ہے، اور مالک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 193]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 1 (603)، و2 (605)، و3 (606)، صحیح مسلم/الصلاة 2 (378)، سنن النسائی/الصلاة 29 (508)، سنن النسائی/الأذان 2 (628)، سنن ابن ماجہ/الأذان 6 (730)، (تحفة الأشراف: 943)، مسند احمد (3/103، 189)، سنن الدارمی/الصلاة 6 (1230، 1231) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (729 و 730)