الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ترمذي
كتاب الصلاة
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
63. باب مَا جَاءَ إِذَا أَمَّ أَحَدُكُمُ النَّاسَ فَلْيُخَفِّفْ
63. باب: جب تم میں سے کوئی امامت کرے تو نماز ہلکی پڑھائے۔
حدیث نمبر: 236
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا أَمَّ أَحَدُكُمُ النَّاسَ فَلْيُخَفِّفْ فَإِنَّ فِيهِمُ الصَّغِيرَ وَالْكَبِيرَ وَالضَّعِيفَ وَالْمَرِيضَ، فَإِذَا صَلَّى وَحْدَهُ فَلْيُصَلِّ كَيْفَ شَاءَ "قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، وَأَنَسٍ، وَجَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، وَمَالِكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، وَأَبِي وَاقِدٍ، وَعُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ، وَأَبِي مَسْعُودٍ، وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ اخْتَارُوا أَنْ لَا يُطِيلَ الْإِمَامُ الصَّلَاةَ مَخَافَةَ الْمَشَقَّةِ عَلَى الضَّعِيفِ وَالْكَبِيرِ وَالْمَرِيضِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَأَبُو الزِّنَادِ اسْمُهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ ذَكْوَانَ، وَالْأَعْرَجُ هُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ هُرْمُزَ الْمَدِينِيُّ وَيُكْنَى أَبَا دَاوُدَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی لوگوں کی امامت کرے تو چاہیئے کہ ہلکی نماز پڑھائے، کیونکہ ان میں چھوٹے، بڑے، کمزور اور بیمار سبھی ہوتے ہیں اور جب وہ تنہا نماز پڑھے تو جیسے چاہے پڑھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عدی بن حاتم، انس، جابر بن سمرہ، مالک بن عبداللہ، ابوواقد، عثمان، ابومسعود، جابر بن عبداللہ اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- یہی اکثر اہل علم کا قول ہے، ان لوگوں نے اسی کو پسند کیا کہ امام نماز لمبی نہ پڑھائے تاکہ کمزور، بوڑھے اور بیمار لوگوں کو پریشانی نہ ہو۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 236]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 62 (703)، صحیح مسلم/الصلاة 37 (467)، سنن ابی داود/ الصلاة 127 (794)، سنن النسائی/الإمامة 35 (824)، (تحفة الأشراف: 13884)، مسند احمد (2/256، 271، 317، 393، 486، 502، 537) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: ہلکی نماز پڑھائے کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ ارکان کی ادائیگی میں اطمینان و سکون اور خشوع و خضوع اور اعتدال نہ ہو، تعدیل ارکان فرض ہے، نیز اگلی حدیث سے واضح ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہلکی نماز پڑھاتے تھے تب بھی کامل نماز پڑھاتے حتیٰ کہ مغرب میں بھی سورۃ الطور یا سورۃ المرسلات پڑھتے تھے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (759)

حدیث نمبر: 237
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَخَفِّ النَّاسِ صَلَاةً فِي تَمَامٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَاسْمُ أَبِي عَوَانَةَ وَضَّاحٌ،. قَالَ أَبُو عِيسَى: سَأَلْتُ قُتَيْبَةَ قُلْتُ: أَبُو عَوَانَةَ مَا اسْمُهُ؟ قَالَ وَضَّاحٌ: قُلْتُ ابْنُ مَنْ؟ قَالَ: لَا أَدْرِي كَانَ عَبْدًا لِامْرَأَةٍ بِالْبَصْرَةِ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ ہلکی اور سب زیادہ مکمل نماز پڑھنے والے تھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 237]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصلاة 37 (469)، سنن النسائی/الإمامة 35 (825)، (تحفة الأشراف: 1432)، مسند احمد (3/170، 173، 179، 231، 234، 276)، سنن الدارمی/الصلاة 46 (1295) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: سب سے ہلکی نماز ہوتی تھی سے مراد یہ ہے کہ آپ لمبی قرأت نہیں کرتے تھے، اسی طرح لمبی دعاؤں سے بھی بچتے تھے، اور سب سے زیادہ مکمل نماز کا مطلب یہ ہے کہ آپ نماز کے جملہ ارکان و سنن اور مستحبات کو بحسن خوبی اطمینان سے ادا کرتے تھے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح