الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ترمذي
كتاب الصلاة
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
158. باب مَا جَاءَ فِي مِقْدَارِ الْقُعُودِ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الأُولَيَيْنِ
158. باب: پہلی دونوں رکعتوں میں قعدہ (تشہد کے لیے بیٹھنے) کی مقدار کا بیان۔
حدیث نمبر: 366
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ هُوَ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، أَخْبَرَنَا سَعْدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَال: سَمِعْتُ أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " إِذَا جَلَسَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الْأُولَيَيْنِ كَأَنَّهُ عَلَى الرَّضْفِ ". قَالَ شُعْبَةُ: ثُمَّ حَرَّكَ سَعْدٌ شَفَتَيْهِ بِشَيْءٍ، فَأَقُولُ: حَتَّى يَقُومَ، فَيَقُولُ حَتَّى يَقُومَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، إِلَّا أَنَّ أَبَا عُبَيْدَةَ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِيهِ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ يَخْتَارُونَ أَنْ لَا يُطِيلَ الرَّجُلُ الْقُعُودَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الْأُولَيَيْنِ وَلَا يَزِيدَ عَلَى التَّشَهُّدِ شَيْئًا، وَقَالُوا: إِنْ زَادَ عَلَى التَّشَهُّدِ فَعَلَيْهِ سَجْدَتَا السَّهْوِ، هَكَذَا رُوِيَ عَنْ الشَّعْبِيِّ وَغَيْرِهِ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب پہلی دونوں رکعتوں میں بیٹھتے تو ایسا لگتا گویا آپ گرم پتھر پر بیٹھے ہیں ۱؎، شعبہ (راوی) کہتے ہیں: پھر سعد نے اپنے دونوں ہونٹوں کو کسی چیز کے ساتھ حرکت دی ۲؎ تو میں نے کہا: یہاں تک کہ آپ کھڑے ہو جاتے؟ تو انہوں نے کہا: یہاں تک کہ آپ کھڑے ہو جاتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے، مگر ابوعبیدہ کا اپنے باپ سے سماع نہیں ہے،
۲- اہل علم کا عمل اسی پر ہے، وہ اسی کو پسند کرتے ہیں کہ آدمی پہلی دونوں رکعتوں میں قعدہ کو لمبا نہ کرے اور تشہد سے زیادہ کچھ نہ پڑھے، ان لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر اس نے تشہد سے زیادہ کوئی چیز پڑھی تو اس پر سہو کے دو سجدے لازم ہو جائیں گے، شعبی وغیرہ سے اسی طرح مروی ہے ۳؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 366]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 188 (995)، سنن النسائی/التطبیق 105 (1177)، (تحفة الأشراف: 9609)، مسند احمد (1/386، 410، 428، 460) (ضعیف) (ابو عبیدہ کا اپنے والد ابن مسعود رضی الله عنہ سے سماع نہیں ہے)»

وضاحت: ۱؎: یعنی بہت جلد اٹھ جاتے۔
۲؎: یعنی چپکے سے کوئی بات کہی جسے میں سن نہیں سکا۔
۳؎: ابن مسعود رضی الله عنہ کا یہ اثر تو سنداً ضعیف ہے، مگر ابوبکر رضی الله عنہ سے مروی اثر جو اسی معنی میں ہے صحیح ہے، اور اسی پر امت کا تعامل ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (915) ، ضعيف أبي داود (177)

قال الشيخ زبير على زئي: (366) إسناده ضعيف /د 995 ، ن 1177