الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ترمذي
كتاب الزكاة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل
35. باب مَا جَاءَ فِي صَدَقَةِ الْفِطْرِ
35. باب: صدقہ فطر کا بیان۔
حدیث نمبر: 673
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، كُنَّا نُخْرِجُ زَكَاةَ الْفِطْرِ، إِذْ كَانَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، صَاعًا مِنْ طَعَامٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ زَبِيبٍ أَوْ صَاعًا مِنْ أَقِطٍ، فَلَمْ نَزَلْ نُخْرِجُهُ حَتَّى قَدِمَ مُعَاوِيَةُ الْمَدِينَةَ، فَتَكَلَّمَ فَكَانَ فِيمَا كَلَّمَ بِهِ النَّاسَ: إِنِّي لَأَرَى مُدَّيْنِ مِنْ سَمْرَاءِ الشَّامِ تَعْدِلُ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، قَالَ: فَأَخَذَ النَّاسُ بِذَلِكَ، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: فَلَا أَزَالُ أُخْرِجُهُ كَمَا كُنْتُ أُخْرِجُهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ يَرَوْنَ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ صَاعًا، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ: مِنْ كُلِّ شَيْءٍ صَاعٌ إِلَّا مِنَ الْبُرِّ، فَإِنَّهُ يُجْزِئُ نِصْفُ صَاعٍ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَأَهْلُ الْكُوفَةِ يَرَوْنَ نِصْفَ صَاعٍ مِنْ بُرٍّ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں ہم لوگ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان موجود تھے - صدقہ فطر ۱؎ میں ایک صاع گیہوں ۲؎ یا ایک صاع جو، یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع کشمش یا ایک صاع پنیر نکالتے تھے۔ تو ہم اسی طرح برابر صدقہ فطر نکالتے رہے یہاں تک کہ معاویہ رضی الله عنہ مدینہ آئے، تو انہوں نے لوگوں سے خطاب کیا، اس خطاب میں یہ بات بھی تھی کہ میں شام کے دو مد گیہوں کو ایک صاع کھجور کے برابر سمجھتا ہوں۔ تو لوگوں نے اسی کو اختیار کر لیا یعنی لوگ دو مد آدھا صاع گیہوں دینے لگے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے ان کا خیال ہے کہ ہر چیز میں ایک صاع ہے، یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے،
۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ ہر چیز میں ایک صاع ہے سوائے گیہوں کے، اس میں آدھا صاع کافی ہے،
۴- یہی سفیان ثوری اور ابن مبارک کا بھی قول ہے۔ اور اہل کوفہ کی بھی رائے ہے کہ گیہوں میں نصف صاع ہی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الزكاة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 673]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الزکاة 72 (1505)، و73 (1506)، و75 (1508)، و76 (1510)، صحیح مسلم/الزکاة 4 (985)، سنن ابی داود/ الزکاة 19 (1616)، سنن النسائی/الزکاة 38 (2515)، سنن ابن ماجہ/الزکاة 21 (1829)، (تحفة الأشراف: 4269)، مسند احمد (3/23، 73، 98)، سنن الدارمی/الزکاة 27 (1704) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: صدقہ فطر کی فرضیت رمضان کے آغاز کے بعد عید سے صرف دو روز پہلے ۲ ھ میں ہوئی، اس کی ادائیگی کا حکم بھی نماز عید سے پہلے پہلے ہے تاکہ معاشرے کے ضرورت مند حضرات اس روز مانگنے سے بے نیاز ہو کر عام مسلمانوں کے ساتھ عید کی خوشی میں شریک ہو سکیں، اس کی مقدار ایک صاع ہے خواہ کوئی بھی جنس ہو، صدقہ فطر کے لیے صاحب نصاب ہونا ضروری نہیں۔ اور صاع ڈھائی کلوگرام کے برابر ہوتا ہے۔
۲؎: «صاعاً من طعام» میں «طعام» سے مراد «حنطۃ» گیہوں ہے کیونکہ «طعام» کا لفظ مطلقاً گیہوں کے معنی میں بولا جاتا تھا جب کہا جاتا ہے: «إذهب إلى سوق الطعام» تو اس سے «سوق الحنطۃ» گیہوں کا بازار ہی سمجھا جاتا تھا، اور بعض لوگوں نے کہا «من طعام مجمل» ہے اور آگے اس کی تفسیر ہے، یہ «عطف الخاص علی العام» ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1829)

حدیث نمبر: 674
حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ مُكْرَمٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا سَالِمُ بْنُ نُوحٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " بَعَثَ مُنَادِيًا فِي فِجَاجِ مَكَّةَ، أَلَا إِنَّ صَدَقَةَ الْفِطْرِ وَاجِبَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ، ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى، حُرٍّ أَوْ عَبْدٍ، صَغِيرٍ أَوْ كَبِيرٍ، مُدَّانِ مِنْ قَمْحٍ أَوْ سِوَاهُ صَاعٌ مِنْ طَعَامٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَرَوَى عُمَرُ بْنُ هَارُونَ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، وَقَالَ: عَنْ الْعَبَّاسِ بْنِ مِينَاءَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ بَعْضَ هَذَا الْحَدِيثِ. حَدَّثَنَا جَارُودُ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ هَارُونَ هَذَا الْحَدِيثَ.
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو مکہ کی گلیوں میں منادی کرنے کے لیے بھیجا کہ سنو! صدقہ فطر ہر مسلمان مرد ہو یا عورت، آزاد ہو یا غلام، چھوٹا ہو یا بڑا، گیہوں سے دو مد اور گیہوں کے علاوہ دوسرے غلوں سے ایک صاع واجب ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- عمر بن ہارون نے یہ حدیث ابن جریج سے روایت کی، اور کہا: «العباس بن ميناء عن النبي صلى الله عليه وسلم» پھر آگے اس حدیث کا کچھ حصہ ذکر کیا۔ [سنن ترمذي/كتاب الزكاة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 674]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 8748) (ضعیف الإسناد) (سند میں سالم بن نوح حافظے کے ضعیف ہیں، مگر اس حدیث کی اصل ثابت ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد

قال الشيخ زبير على زئي: (674) ¤ إسناده ضعيف ¤ ابن جريج مدلس (د 19) وعنعن

حدیث نمبر: 675
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: " فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدَقَةَ الْفِطْرِ عَلَى الذَّكَرِ وَالْأُنْثَى وَالْحُرِّ وَالْمَمْلُوكِ، صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ ". قَالَ: فَعَدَلَ النَّاسُ إِلَى نِصْفِ صَاعٍ مِنْ بُرٍّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَجَدِّ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي ذُبَاب، وَثَعْلَبَةَ بْنِ أَبِي صُعَيْرٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر مرد، عورت، آزاد اور غلام پر، ایک صاع کھجور، یا ایک صاع جو فرض کیا، راوی کہتے ہیں: پھر لوگوں نے آدھا صاع گیہوں کو اس کے برابر کر لیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابوسعید، ابن عباس، حارث بن عبدالرحمٰن بن ابی ذباب کے دادا (یعنی ابوذباب)، ثعلبہ بن ابی صعیر اور عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الزكاة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 675]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الزکاة 77 (1511)، صحیح مسلم/الزکاة 4 (984)، سنن النسائی/الزکاة 30 (2502)، و31 (2503)، (تحفة الأشراف: 7510)، مسند احمد (2/5) (صحیح) وأخرجہ: صحیح البخاری/الزکاة 70 (1503)، و71 (1504)، و74 (1507)، و74 (1507)، و78 (1512)، وصحیح مسلم/الزکاة (المصدر السابق)، و سنن ابی داود/ الزکاة 19 (1611)، وسنن النسائی/الزکاة 32 (2504)، و33 (2505)، وسنن ابن ماجہ/الزکاة 21 (1825، و1826)، (52)، و مسند احمد (2/55، 63، 66، 102، 114، 137)، و سنن الدارمی/الزکاة 27 (1668)، من غیر ہذا الطریق عنہ، وانظر الحدیث الآتی۔»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1825)

حدیث نمبر: 676
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " فَرَضَ زَكَاةَ الْفِطْرِ مِنْ رَمَضَانَ، صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ، عَلَى كُلِّ حُرٍّ أَوْ عَبْدٍ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى مِنَ الْمُسْلِمِينَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَرَوَى مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ حَدِيثِ أَيُّوبَ، وَزَادَ فِيهِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، وَرَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ نَافِعٍ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي هَذَا، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: إِذَا كَانَ لِلرَّجُلِ عَبِيدٌ غَيْرُ مُسْلِمِينَ لَمْ يُؤَدِّ عَنْهُمْ صَدَقَةَ الْفِطْرِ، وَهُوَ قَوْلُ مَالِكٍ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وقَالَ بَعْضُهُمْ: يُؤَدِّي عَنْهُمْ وَإِنْ كَانُوا غَيْرَ مُسْلِمِينَ، وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ، وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَإِسْحَاق.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کا صدقہ فطر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو مسلمانوں میں سے ہر آزاد اور غلام، مرد اور عورت پر فرض کیا ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- مالک نے بھی بطریق: «نافع عن ابن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم» ایوب کی حدیث کی طرح روایت کی ہے البتہ اس میں «من المسلمين» کا اضافہ ہے۔
۳- اور دیگر کئی لوگوں نے نافع سے روایت کی ہے، اس میں «من المسلمين» کا ذکر نہیں ہے،
۴- اہل علم کا اس سلسلے میں اختلاف ہے بعض کہتے ہیں کہ جب آدمی کے پاس غیر مسلم غلام ہوں تو وہ ان کا صدقہ فطر ادا نہیں کرے گا۔ یہی مالک، شافعی اور احمد کا قول ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ وہ غلاموں کا صدقہ فطر ادا کرے گا خواہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہوں، یہ ثوری، ابن مبارک اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الزكاة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 676]
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف: 8321) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: اس روایت میں لفظ «فَرضَ» استعمال ہوا ہے جس کے معنی فرض اور لازم ہونے کے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ صدقہ فطر فرض ہے بعض لوگوں نے «فَرضَ» کو «قَدَّرَ» کے معنی میں لیا ہے لیکن یہ ظاہر کے سراسر خلاف ہے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ روایت میں «من المسلمين» کی قید اتفاقی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1826)