عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دسویں ذی الحجہ کو جمرہ کی رمی سواری پر کی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں جابر، قدامہ بن عبداللہ، اور سلیمان بن عمرو بن احوص کی ماں (رضی الله عنہم) سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ۴- بعض نے یہ پسند کیا ہے کہ وہ جمرات تک پیدل چل کر جائیں، ۵- ابن عمر سے مروی ہے، انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ جمرات تک پیدل چل کر جاتے، ۶- ہمارے نزدیک اس حدیث کی توجیہ یہ ہے کہ آپ نے کبھی کبھار سواری پر رمی اس لیے کی تاکہ آپ کے اس فعل کی بھی لوگ پیروی کریں۔ اور دونوں ہی حدیثوں پر اہل علم کا عمل ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 899]
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/المناسک66 (3034) (تحفة الأشراف: 6467) (صحیح) (سابقہ جابر کی حدیث نمبر886سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، وانظر الحديث (887) ، ابن ماجة (3034)
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب رمی جمار کرتے، تو جمرات تک پیدل آتے جاتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- بعض لوگوں نے اسے عبیداللہ (العمری) سے روایت کیا ہے، لیکن انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے، ۳- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ۴- بعض لوگ کہتے ہیں کہ دسویں ذی الحجہ کو سوار ہو سکتا ہے، اور دسویں کے بعد باقی دنوں میں پیدل جائے گا۔ گویا جس نے یہ کہا ہے اس کے پیش نظر صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فعل کی اتباع ہے۔ اس لیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ دسویں ذی الحجہ کو سوار ہوئے جب آپ رمی جمار کرنے گئے۔ اور دسویں ذی الحجہ کو صرف جمرہ عقبہ ہی کی رمی کرے۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 900]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 8011) (صحیح) وأخرجہ مسند احمد (2/138) من طریق عبد العمری عن نافع بہ۔»
قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (2072) ، صحيح أبي داود (1718)