عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ہم لوگ ایک سفر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، آپ نے دیکھا کہ ایک شخص اپنے اونٹ سے گر پڑا، اس کی گردن ٹوٹ گئی اور وہ مر گیا وہ محرم تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو اور اسے اس کے انہی (احرام کے) دونوں کپڑوں میں کفناؤ اور اس کا سر نہ چھپاؤ، اس لیے کہ وہ قیامت کے دن تلبیہ پکارتا ہوا اٹھایا جائے گا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہی سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، ۳- بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب محرم مر جاتا ہے تو اس کا احرام ختم ہو جاتا ہے، اور اس کے ساتھ بھی وہی سب کچھ کیا جائے گا جو غیر محرم کے ساتھ کیا جاتا ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 951]
وضاحت: ۱؎: یہ قول حنفیہ اور مالکیہ کا ہے، ان کی دلیل ابوہریرہ کی حدیث «إذا مات ابن آدم انقطع عمله» ہے اور باب کی حدیث کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ ممکن ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعہ یہ بتا دیا گیا ہو کہ یہ شخص مرنے کے بعد اپنے احرام ہی کی حالت میں باقی رہے گا، یہ خاص ہے اسی آدمی کے ساتھ، لیکن کیا اس خصوصیت کی کوئی دلیل ہے؟، ایسی فقہ کا کیا فائدہ جو قرآن وسنت کی نصوص کے ہی خلاف ہو۔