الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ترمذي
كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
20. باب مَا جَاءَ فِي كَفَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
20. باب: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے کفن کا بیان۔
حدیث نمبر: 996
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " كُفِّنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ثَلَاثَةِ أَثْوَابٍ بِيضٍ يَمَانِيَةٍ، لَيْسَ فِيهَا قَمِيصٌ وَلَا عِمَامَةٌ ". قَالَ: فَذَكَرُوا لِعَائِشَةَ قَوْلَهُمْ: فِي ثَوْبَيْنِ وَبُرْدِ حِبَرَةٍ، فَقَالَتْ: قَدْ أُتِيَ بِالْبُرْدِ وَلَكِنَّهُمْ رَدُّوهُ وَلَمْ يُكَفِّنُوهُ فِيهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تین سفید ۱؎ یمنی کپڑوں میں کفنایا گیا ۲؎ نہ ان میں قمیص ۳؎ تھی اور نہ عمامہ۔ لوگوں نے عائشہ رضی الله عنہا سے کہا: لوگ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو کپڑوں اور ایک دھاری دار چادر میں کفنایا گیا تھا؟ تو ام المؤمنین عائشہ نے کہا: چادر لائی گئی تھی لیکن لوگوں نے اسے واپس کر دیا تھا، آپ کو اس میں نہیں کفنایا گیا تھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 996]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الجنائز 13 (941)، سنن ابی داود/ الجنائز 34 (3152)، سنن النسائی/الجنائز 39 (900)، سنن ابن ماجہ/الجنائز 11 (1469)، (تحفة الأشراف: 16786) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/الجنائز 18 (1264)، و23 (1271)، و24 (1272)، و94 (1387)، صحیح مسلم/الجنائز (المصدرالمذکور)، الجنائز (3151)، سنن النسائی/الجنائز 39 (1898 و1899)، موطا امام مالک/الجنائز 2 (5)، مسند احمد (6/40، 93، 118، 132، 165، 231) من غیر ہذا الوجہ۔»

وضاحت: ۱؎: تین سفید کپڑوں سے مراد تین بڑی چادریں ہیں اور بعض کے نزدیک کفنی، تہ بند اور بڑی چادر ہے۔
۲؎: اس سے معلوم ہوا کہ کفن تین کپڑوں سے زیادہ مکروہ ہے بالخصوص عمامہ (پگڑی) جسے متاخرین حنفیہ اور مالکیہ نے رواج دیا ہے سراسر بدعت ہے رہی ابن عباس کی روایت جس میں ہے «كفن رسول الله صلى الله عليه وسلم في ثلاثة أثواب بحرانية: الحلة، ثوبان، وقميصه الذي مات فيه» تو یہ منکر ہے اس کے راوی یزید بن ابی زیاد ضعیف ہیں، اسی طرح عبادہ بن صامت کی حدیث «خير الكفن الحلة» بھی ضعیف ہے اس کے راوی نسي مجہول ہیں۔
۳؎: اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ کفن میں قمیص مستحب نہیں جمہور کا یہی قول ہے، لیکن مالکیہ اور حنفیہ استحباب کے قائل ہیں، وہ اس حدیث کا جواب یہ دیتے ہیں کہ اس میں احتمال یہ ہے کہ دونوں ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ شمار کی گئی چیز کی نفی ہو یعنی قمیص اور عمامہ ان تینوں میں شامل نہیں تھے بلکہ یہ دونوں زائد تھے، اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ پہلا احتمال ہی صحیح ہے اور اس کا مطلب یہی ہے کفن میں قمیص اور عمامہ نہیں تھا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1469)

حدیث نمبر: 997
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَفَّنَ حَمْزَةَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فِي نَمِرَةٍ فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَلِيٍّ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ، وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ فِي كَفَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رِوَايَاتٌ مُخْتَلِفَةٌ، وَحَدِيثُ عَائِشَةَ أَصَحُّ الْأَحَادِيثِ الَّتِي رُوِيَتْ فِي كَفَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالْعَمَلُ عَلَى حَدِيثِ عَائِشَةَ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، قَالَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ: يُكَفَّنُ الرَّجُلُ فِي ثَلَاثَةِ أَثْوَابٍ إِنْ شِئْتَ فِي قَمِيصٍ وَلِفَافَتَيْنِ، وَإِنْ شِئْتَ فِي ثَلَاثِ لَفَائِفَ، وَيُجْزِي ثَوْبٌ وَاحِدٌ إِنْ لَمْ يَجِدُوا ثَوْبَيْنِ، وَالثَّوْبَانِ يُجْزِيَانِ، وَالثَّلَاثَةُ لِمَنْ وَجَدَهَا أَحَبُّ إِلَيْهِمْ، وَهُوَ قَوْلُ: الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، قَالُوا: تُكَفَّنُ الْمَرْأَةُ فِي خَمْسَةِ أَثْوَابٍ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حمزہ بن عبدالمطلب رضی الله عنہ کو ایک ہی کپڑے میں ایک چادر میں کفنایا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کفن کے بارے میں مختلف احادیث آئی ہیں۔ اور ان سبھی حدیثوں میں عائشہ والی حدیث سب سے زیادہ صحیح ہے،
۳- اس باب میں علی ۱؎، ابن عباس، عبداللہ بن مغفل اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۴- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا عمل عائشہ ہی کی حدیث پر ہے،
۵- سفیان ثوری کہتے ہیں: آدمی کو تین کپڑوں میں کفنایا جائے۔ چاہے ایک قمیص اور دو لفافوں میں، اور چاہے تین لفافوں میں۔ اگر دو کپڑے نہ ملیں تو ایک بھی کافی ہے، اور دو کپڑے بھی کافی ہو جاتے ہیں، اور جسے تین میسر ہوں تو اس کے لیے مستحب یہی تین کپڑے ہیں۔ شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے۔ وہ کہتے ہیں: عورت کو پانچ کپڑوں میں کفنایا جائے ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 997]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 2369) (حسن)»

وضاحت: ۱؎: علی کی روایت کی تخریج ابن ابی شیبہ، احمد اور بزار نے «كفن النبي صلى الله عليه وسلم في سبعة أثواب» کے الفاظ کے ساتھ کی ہے لیکن اس کی سند میں عبداللہ بن محمد بن عقیل ہیں جو سئی الحفظ ہیں ان کی حدیث سے استدلال درست نہیں جب وہ ثقات کے مخالف ہو۔
۲؎: اس کی دلیل لیلیٰ بنت قانف ثقفیہ رضی الله عنہا کی حدیث ہے جس کی تخریج احمد اور ابوداؤد نے کی ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں، لیلیٰ کہتی ہیں: «کنت فیمن غسل أم کلثوم بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم عندو فاتہا، فکان أوّل ما أعطانا رسول الله صلى الله عليه وسلم الحقاء، ثم الدرع ثم الخمار، ثم الملحفۃ، ثم أدرجت بعد فی الثوب الآخر، قالت: و رسول الله صلى الله عليه وسلم جالس عندالباب معہ کفنہا یناولناہا ثوباً ثوباً» لیکن یہ روایت ضعیف ہے اس کے راوی نوح بن حکیم ثقفی مجہول ہیں۔

قال الشيخ الألباني: حسن الأحكام (59 - 60)

قال الشيخ زبير على زئي: (997) إسناده ضعيف ¤ ابن عقيل ضعيف (د 128 ) وحديث الطحاوي (شرح معاني الأثار 503/1) عن عبدالله بن الزبير رضى الله عنه وسنده حسن ) يغني عنه