الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ترمذي
كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
37. باب مَا جَاءَ فِي التَّكْبِيرِ عَلَى الْجَنَازَةِ
37. باب: نماز جنازہ کی تکبیرات کا بیان۔
حدیث نمبر: 1022
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، " أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى عَلَى النَّجَاشِيِّ فَكَبَّرَ أَرْبَعًا ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَابْنِ أَبِي أَوْفَى، وَجَابِرٍ، وَيَزِيدَ بْنِ ثَابِتٍ، وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَيَزِيدُ بْنُ ثَابِتٍ هُوَ أَخُو زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَهُوَ أَكْبَرُ مِنْهُ شَهِدَ بَدْرًا، وَزَيْدٌ لَمْ يَشْهَدْ بَدْرًا. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، يَرَوْنَ التَّكْبِيرَ عَلَى الْجَنَازَةِ أَرْبَعَ تَكْبِيرَاتٍ، وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی کی نماز جنازہ پڑھی تو آپ نے چار تکبیریں کہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابن عباس، ابن ابی اوفی، جابر، یزید بن ثابت اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں
۳- یزید بن ثابت: زید بن ثابت کے بھائی ہیں۔ یہ ان سے بڑے ہیں۔ یہ بدر میں شریک تھے اور زید بدر میں شریک نہیں تھے،
۴- صحابہ کرام میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ ان لوگوں کی رائے ہے کہ نماز جنازہ میں چار تکبیریں ہیں۔ سفیان ثوری، مالک بن انس، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1022]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجنائز 54 (1318)، سنن النسائی/الجنائز 72 (1974)، سنن ابن ماجہ/الجنائز 33 (1534) (تحفة الأشراف: 13267) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/الجنائز 4 (1245)، و64 (1333)، والمناقب 38 (3880، 3881)، صحیح مسلم/الجنائز 22 (951)، سنن ابی داود/ الجنائز 62 (3204)، سنن النسائی/الجنائز 72 (1973)، و76 (1982)، موطا امام مالک/الجنائز 5 (14)، مسند احمد (2/289، 438، 529) من غیر ہذا الوجہ۔»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1534)

حدیث نمبر: 1023
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، قَالَ: كَانَ زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ يُكَبِّرُ عَلَى جَنَائِزِنَا أَرْبَعًا، وَإِنَّهُ كَبَّرَ عَلَى جَنَازَةٍ خَمْسًا، فَسَأَلْنَاهُ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكَبِّرُهَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَغَيْرِهِمْ رَأَوْا التَّكْبِيرَ عَلَى الْجَنَازَةِ خَمْسًا، وقَالَ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاق: إِذَا كَبَّرَ الْإِمَامُ عَلَى الْجَنَازَةِ خَمْسًا فَإِنَّهُ يُتَّبَعُ الْإِمَامُ.
عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ زید بن ارقم ہمارے جنازوں پر چار تکبیریں کہتے تھے۔ انہوں نے ایک جنازے پر پانچ تکبیریں کہیں ہم نے ان سے اس کی وجہ پوچھی، تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا بھی کہتے تھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- زید بن ارقم کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ جنازے میں پانچ تکبیریں ہیں،
۳- احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: جب امام جنازے میں پانچ تکبیریں کہے تو امام کی پیروی کی جائے (یعنی مقتدی بھی پانچ کہیں)۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1023]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الجنائز 23 (957)، سنن ابی داود/ الجنائز 58 (3197)، سنن النسائی/الجنائز 76 (1984)، سنن ابن ماجہ/الجنائز 25 (1505)، (تحفة الأشراف: 3671)، مسند احمد (4/367، 368، 370، 372) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: اس روایت سے معلوم ہوا کہ نماز جنازہ میں چار سے زیادہ تکبیریں بھی جائز ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور صحابہ کرام سے پانچ، چھ، سات اور آٹھ تکبیریں بھی منقول ہیں، لیکن اکثر روایات میں چار تکبیروں ہی کا ذکر ہے، بیہقی وغیرہ میں ہے کہ عمر رضی الله عنہ نے صحابہ کرام کے باہمی مشورے سے چار تکبیروں کا حکم صادر فرمایا، بعض نے اسے اجماع قرار دیا ہے، لیکن یہ صحیح نہیں، علی رضی الله عنہ وغیرہ سے چار سے زائد تکبیریں بھی ثابت ہیں، چوتھی تکبیر کے بعد کی تکبیرات میں میت کے لیے دعا ہوتی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1505)