الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ترمذي
كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
55. باب مَا جَاءَ فِي الثَّوْبِ الْوَاحِدِ يُلْقَى تَحْتَ الْمَيِّتِ فِي الْقَبْرِ
55. باب: قبر میں میت کے نیچے کپڑا بچھانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1047
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَخْزَمَ الطَّائِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ فَرْقَدٍ، قَال: سَمِعْتُ جَعْفَرَ بْنَ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: " الَّذِي أَلْحَدَ قَبْرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبُو طَلْحَةَ، وَالَّذِي أَلْقَى الْقَطِيفَةَ تَحْتَهُ شُقْرَانُ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ". قَالَ جَعْفَرٌ: وَأَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي رَافِعٍ، قَال: سَمِعْتُ شُقْرَانَ، يَقُولُ: أَنَا وَاللَّهِ طَرَحْتُ الْقَطِيفَةَ تَحْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْقَبْرِ، قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ شُقْرَانَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَرَوَى عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ فَرْقَدٍ هَذَا الْحَدِيثَ.
عثمان بن فرقد کہتے ہیں کہ میں نے جعفر بن محمد سے سنا وہ اپنے باپ سے روایت کر رہے تھے جس آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر بغلی بنائی، وہ ابوطلحہ ہیں اور جس نے آپ کے نیچے چادر بچھائی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مولی ٰ شقران ہیں، جعفر کہتے ہیں: اور مجھے عبیداللہ بن ابی رافع نے خبر دی وہ کہتے ہیں کہ میں نے شقران کو کہتے سنا: اللہ کی قسم! میں نے قبر میں رسول اللہ کے نیچے چادر ۱؎ بچھائی تھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- شقران کی حدیث حسن غریب ہے،
۲- اس باب میں ابن عباس سے بھی روایت ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1047]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 4846) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یہ چادر جھالردار تھی جسے شقران نے قبر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نیچے بچھایا تھا تاکہ اسے آپ کے بعد کوئی استعمال نہ کر سکے خود شقران کا بیان ہے کہ «كرهت أن يلبسها أحد بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم» امام شافعی اور ان کے اصحاب اور دیگر بہت سے علماء نے قبر میں کوئی چادر یا تکیہ وغیرہ رکھنے کو مکروہ کہا ہے اور یہی جمہور کا قول ہے اور اس حدیث کا جواب ان لوگوں نے یہ دیا ہے کہ ایسا کرنے میں شقران منفرد تھے صحابہ میں سے کسی نے بھی ان کی موافقت نہیں کی تھی اور صحابہ کرام کو یہ معلوم نہیں ہو سکا تھا اور واقدی نے علی بن حسین سے روایت کی ہے کہ لوگوں کو جب اس کا علم ہوا تو انہوں نے اسے نکلوا دیا تھا، ابن عبدالبر نے قطعیت کے ساتھ ذکر کیا ہے کہ مٹی ڈال کر قبر برابر کرنے سے پہلے یہ چادر نکال دی گئی تھی اور ابن سعد نے طبقات ۲/۲۹۹ میں وکیع کا قول نقل کیا ہے کہ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص ہے اور حسن بصری سے ایک روایت میں ہے کہ زمین گیلی تھی اس لیے یہ سرخ چادر بچھائی گئی تھی جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اوڑھتے تھے اور حسن بصری ہی سے ایک دوسری روایت میں ہے کہ «قال رسول الله صلى الله عليه وسلم فرشوا لي قطيفتي في لحدي فإن الأرض لم تسلط على أجساد الأنبياء» ان تمام روایات کا خلاصہ یہ ہے کہ چادر نکال دی گئی تھی اور اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ نہیں نکالی گئی تھی تو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص مانا جائے گا دوسروں کے لیے ایسا کرنا درست نہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 1048
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " جُعِلَ فِي قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَطِيفَةٌ حَمْرَاءُ ". قَالَ: وقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، وَيَحْيَى، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَهَذَا أَصَحُّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَى شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ الْقَصَّابِ وَاسْمُهُ: عِمْرَانُ بْنُ أَبِي عَطَاءٍ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ الضُّبَعِيِّ وَاسْمُهُ: نَصْرُ بْنُ عِمْرَانَ، وَكِلَاهُمَا مِنْ أَصْحَابِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَقَدْ رُوِى عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ كَرِهَ أَنْ يُلْقَى تَحْتَ الْمَيِّتِ فِي الْقَبْرِ شَيْءٌ، وَإِلَى هَذَا ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر میں ایک لال چادر رکھی گئی۔ اور محمد بن بشار نے دوسری جگہ اس سند میں ابوجمرہ کہا ہے اور یہ زیادہ صحیح ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- شعبہ نے ابوحمزہ قصاب سے بھی روایت کی ہے، ان کا نام عمران بن ابی عطا ہے، اور ابوجمرہ ضبعی سے بھی روایت کی گئی ہے، ان کا نام نصر بن عمران ہے۔ یہ دونوں ابن عباس کے شاگرد ہیں،
۳- ابن عباس سے یہ بھی روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے قبر میں میت کے نیچے کسی چیز کے بچھانے کو مکروہ جانا ہے۔ بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1048]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الجنائز30 (967) سنن النسائی/الجنائز 88 (2014) (تحفة الأشراف: 6526) مسند احمد (1/228، 355) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح