الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ترمذي
كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
60. باب مَا جَاءَ فِي الرُّخْصَةِ فِي زِيَارَةِ الْقُبُورِ
60. باب: قبروں کی زیارت کی رخصت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1054
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، قَالُوا: حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمِ النَّبِيلُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " قَدْ كُنْتُ نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ، فَقَدْ أُذِنَ لِمُحَمَّدٍ فِي زِيَارَةِ قَبْرِ أُمِّهِ، فَزُورُوهَا فَإِنَّهَا تُذَكِّرُ الْآخِرَةَ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَابْنِ مَسْعُودٍ، وَأَنَسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَأُمِّ سَلَمَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ بُرَيْدَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ لَا يَرَوْنَ بِزِيَارَةِ الْقُبُورِ بَأْسًا، وَهُوَ قَوْلُ: ابْنِ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق.
بریدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے روکا تھا۔ اب محمد کو اپنی ماں کی قبر کی زیارت کی اجازت دے دی گئی ہے۔ تو تم بھی ان کی زیارت کرو، یہ چیز آخرت کو یاد دلاتی ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- بریدہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابو سعید خدری، ابن مسعود، انس، ابوہریرہ اور ام سلمہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ وہ قبروں کی زیارت میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔ ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1054]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الجنائز 36 (977) (بزیادة فی السیاق) (تحفة الأشراف: 1932) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح مسلم/الأضاحی5 (977) سنن ابی داود/ الأشربة7 (3698) سنن النسائی/الجنائز100 (2034) والأضاحی35 (4434، 4435) مسند احمد (5/350، 355، 356، 357) من غیر ہذا الوجہ۔»

وضاحت: ۱؎: اس میں قبروں کی زیارت کا استحباب ہی نہیں بلکہ اس کا حکم اور تاکید ہے، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ابتداء اسلام میں اس کام سے روک دیا گیا تھا کیونکہ اس وقت یہ اندیشہ تھا کہ مسلمان اپنے زمانہ جاہلیت کے اثر سے وہاں کوئی غلط کام نہ کر بیٹھیں پھر جب یہ خطرہ ختم ہو گیا اور مسلمان عقیدہ توحید میں پختہ ہو گئے تو اس کی نہ صرف اجازت دے دی گئی بلکہ اس کی تاکید کی گئی تاکہ موت کا تصور انسان کے دل و دماغ میں ہر وقت رچا بسا رہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح الأحكام (178 و 188)

حدیث نمبر: 1055
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ: تُوُفِّيَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ بالحبْشِيَّ، قَالَ: فَحُمِلَ إِلَى مَكَّةَ، فَدُفِنَ فِيهَا، فَلَمَّا قَدِمَتْ عَائِشَةُ، أَتَتْ قَبْرَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، فَقَالَتْ: وَكُنَّا كَنَدْمَانَيْ جَذِيمَةَ حِقْبَةً مِنَ الدَّهْرِ حَتَّى قِيلَ لَنْ يَتَصَدَّعَا فَلَمَّا تَفَرَّقْنَا كَأَنِّي وَمَالِكًا لِطُولِ اجْتِمَاعٍ لَمْ نَبِتْ لَيْلَةً مَعَا ثُمَّ قَالَتْ: " وَاللَّهِ لَوْ حَضَرْتُكَ مَا دُفِنْتَ إِلَّا حَيْثُ مُتَّ، وَلَوْ شَهِدْتُكَ مَا زُرْتُكَ ".
عبداللہ بن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ عبدالرحمٰن بن ابی بکر حبشہ میں وفات پا گئے تو انہیں مکہ لا کر دفن کیا گیا، جب ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا (مکہ) آئیں تو عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی الله عنہ کی قبر پر آ کر انہوں نے یہ اشعار پڑھے۔ «وكنا كندماني جذيمة حقبة من الدهر حتى قيل لن يتصدعا فلما تفرقنا كأني ومالكا لطول اجتماع لم نبت ليلة معا» ہم دونوں ایک عرصے تک ایک ساتھ ایسے رہے تھے جیسے بادشاہ جزیمہ کے دو ہم نشین، یہاں تک کہ یہ کہا جانے لگا کہ یہ دونوں کبھی ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے۔ پھر جب ہم جدا ہوئے تو مدت دراز تک ایک ساتھ رہنے کے باوجود ایسا لگنے لگا گویا میں اور مالک ایک رات بھی کبھی ایک ساتھ نہ رہے ہوں۔ پھر کہا: اللہ کی قسم! اگر میں تمہارے پاس موجود ہوتی تو تجھے وہیں دفن کیا جاتا جہاں تیرا انتقال ہوا اور اگر میں حاضر رہی ہوتی تو تیری زیارت کو نہ آتی۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1055]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (ضعیف) (عبدالملک بن عبدالعزیز ابن جریج ثقہ راوی ہیں، لیکن تدلیس اور ارسال کرتے تھے اور یہاں پر روایت عنعنہ سے ہے، اس لیے یہ سند ضعیف ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (1718)

قال الشيخ زبير على زئي: (1055) (بل صحيح) ابن جريج مدلس (تقدم:674) وعنعن فى ھذا اللفظ ورواه عبدالرزاق (517/3 ح 6535) عنه بتصريح السماع مختصراً وجاء فى مصنف ابن أبى شيبه (343/3 ،344) لون أخر . وله شاھد صحيح فى تاريخ دمشق (41/35) وسنده صحيح وبه صح الحديث