الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ترمذي
كتاب النكاح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: نکاح کے احکام و مسائل
10. باب مَا جَاءَ فِي الْوَلِيمَةِ
10. باب: ولیمہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 1094
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى عَلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ أَثَرَ صُفْرَةٍ، فَقَالَ: " مَا هَذَا؟ " فَقَالَ: إِنِّي تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً عَلَى وَزْنِ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ، فَقَالَ: " بَارَكَ اللَّهُ لَكَ، أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاةٍ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَعَائِشَةَ، وَجَابِرٍ، وَزُهَيْرِ بْنِ عُثْمَانَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وقَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: وَزْنُ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ: وَزْنُ ثَلَاثَةِ دَرَاهِمَ وَثُلُثٍ، وقَالَ إِسْحَاق: هُوَ وَزْنُ خَمْسَةِ دَرَاهِمَ وَثُلُثٍ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمٰن بن عوف کے جسم پر زردی کا نشان دیکھا تو پوچھا: یہ کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا: میں نے ایک عورت سے کھجور کی ایک گٹھلی سونے کے عوض شادی کر لی ہے، آپ نے فرمایا: اللہ تمہیں برکت عطا کرے، ولیمہ ۱؎ کرو خواہ ایک ہی بکری کا ہو ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- انس کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابن مسعود، عائشہ، جابر اور زہیر بن عثمان رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- احمد بن حنبل کہتے ہیں: گٹھلی بھر سونے کا وزن تین درہم اور تہائی درہم وزن کے برابر ہوتا ہے،
۴- اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: پانچ درہم اور تہائی درہم کے وزن کے برابر ہوتا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب النكاح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1094]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/النکاح 56 (5155)، والدعوات 53 (6386)، صحیح مسلم/النکاح 3 (1427)، سنن النسائی/النکاح 74 (3374، 3375)، سنن ابن ماجہ/النکاح 24 (1907)، (تحفة الأشراف: 288)، سنن الدارمی/النکاح 22 (2250) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/البیوع 1 (2049)، ومناقب الأنصار 3 (3781)، والنکاح 49 (5138)، و54 (5153)، و68 (5168)، والأدب 67 (6082)، صحیح مسلم/النکاح (المصدر المذکور)، سنن ابی داود/ النکاح 30 (2190)، مسند احمد (3/165، 190، 205، 271)، سنن الدارمی/الأطعمة 28 (2108) من غیر ہذا الوجہ۔»

وضاحت: ۱؎: «أولم ولو بشأة» میں «لو» تقلیل کے لیے آیا ہے یعنی کم از کم ایک بکری ذبح کرو، لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ کے ولیمہ میں صرف ستو اور کھجور پر اکتفا کیا، اس لیے مستحب یہ ہے کہ ولیمہ شوہر کی مالی حیثیت کے حسب حال ہو، عبدالرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ کی مالی حالت کے پیش نظر ایک بکری کا ولیمہ کم تھا اسی لیے آپ نے ان سے «أولم ولو بشأة» فرمایا۔
۲؎: شادی بیاہ کے موقع پر جو کھانا کھلایا جاتا ہے اسے ولیمہ کہتے ہیں، یہ «ولم» (واؤ کے فتحہ اور لام کے سکون کے ساتھ) سے مشتق ہے جس کے معنی اکٹھا اور جمع ہونے کے ہیں، چونکہ میاں بیوی اکٹھا ہوتے ہیں اس لیے اس کو ولیمہ کہتے ہیں، ولیمہ کا صحیح وقت خلوت صحیحہ کے بعد ہے جمہور کے نزدیک ولیمہ سنت ہے اور بعض نے اسے واجب کہا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1907)

حدیث نمبر: 1095
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ وَائِلِ بْنِ دَاوُدَ، عَنْ ابْنِهِ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، " أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْلَمَ عَلَى صَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيٍّ بِسَوِيقٍ وَتَمْرٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ بنت حیی کا ولیمہ ستو اور کھجور سے کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب النكاح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1095]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الأطعمة 2 (3744)، سنن النسائی/النکاح 79 (3387)، سنن ابن ماجہ/النکاح 24 (1909)، (تحفة الأشراف: 1482) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح مسلم/النکاح 14 والجہاد 43 (1365)، من غیر ہذا الوجہ وفي سیاق طویل۔»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1909)

حدیث نمبر: 1096
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ نَحْوَ هَذَا، وَقَدْ رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسٍ وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ عَنْ وَائِلٍ، عَنِ ابْنِهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَكَانَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ يُدَلِّسُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، فَرُبَّمَا لَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ وَائِلٍ، عَنِ ابْنِهِ وَرُبَّمَا ذَكَرَهُ.
اس سند سے بھی سفیان سے اسی طرح مروی ہے، اور کئی لوگوں نے یہ حدیث بطریق: «ابن عيينة، عن الزهري، عن أنس» روایت کی ہے لیکن ان لوگوں نے اس میں وائل بن داود اور ان کے بیٹے کے واسطوں کا ذکر نہیں کیا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
سفیان بن عیینہ اس حدیث میں تدلیس کرتے تھے۔ کبھی انہوں نے اس میں «وائل بن داود عن ابنہ» کا ذکر نہیں کیا ہے اور کبھی اس کا ذکر کیا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب النكاح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1096]
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: **

حدیث نمبر: 1097
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " طَعَامُ أَوَّلِ يَوْمٍ حَقٌّ، وَطَعَامُ يَوْمِ الثَّانِي سُنَّةٌ، وَطَعَامُ يَوْمِ الثَّالِثِ سُمْعَةٌ، وَمَنْ سَمَّعَ سَمَّعَ اللَّهُ بِهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ لَا نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا، إِلَّا مِنْ حَدِيثِ زِيَادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، وَزِيَادُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ كَثِيرُ الْغَرَائِبِ وَالْمَنَاكِيرِ، قَالَ: وسَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل يَذْكُرُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُقْبَةَ، قَالَ: قَالَ وَكِيعٌ: زِيَادُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ مَعَ شَرَفِهِ يَكْذِبُ فِي الْحَدِيثِ.
ابن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پہلے روز کا کھانا حق ہے، دوسرے روز کا کھانا سنت ہے۔ اور تیسرے روز کا کھانا تو محض دکھاوا اور نمائش ہے اور جو ریاکاری کرے گا اللہ اسے اس کی ریاکاری کی سزا دے گا ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن مسعود کی حدیث کو ہم صرف زیاد بن عبداللہ کی روایت سے مرفوع جانتے ہیں۔ اور زیاد بن عبداللہ بہت زیادہ غریب اور منکر احادیث بیان کرتے ہیں،
۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو سنا کہ وہ محمد بن عقبہ سے نقل کر رہے تھے کہ وکیع کہتے ہیں: زیاد بن عبداللہ اس بات سے بہت بلند ہیں کہ وہ حدیث میں جھوٹ بولیں۔ [سنن ترمذي/كتاب النكاح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1097]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ الؤلف (تحفة الأشراف: 9329) (ضعیف) (اس کے راوی زیاد بن عبداللہ بکائی میں ضعف ہے، مؤلف نے اس کی صراحت کر سنن الدارمی/ ہے، لیکن آخری ٹکڑے کے صحیح شواہد موجود ہیں جن میں سے بعض صحیحین میں ہیں)»

وضاحت: ۱؎: ترمذی کے نسخوں میں یہاں پر عبارت یوں ہے: «مع شرفه يكذب» جس کا مطلب یہ ہے کہ وکیع نے ان پر سخت جرح کی ہے، اور ان کی شرافت کے اعتراف کے ساتھ ان کے بارے میں یہ صراحت کر دی ہے کہ وہ حدیث میں جھوٹ بولتے ہیں، اور یہ بالکل غلط اور وکیع کے قول کے برعکس ہے، التاریخ الکبیر للبخاری ۳/الترجمۃ ۱۲۱۸ اور تہذیب الکمال میں عبارت یوں ہے: «هو أشرف من أن يكذب» نیز حافظ ابن حجر نے تقریب میں لکھا ہے کہ وکیع سے یہ ثابت نہیں ہے کہ انہوں نے زیاد کی تکذیب کی ہے، ان کی عبارت یہ ہے: «صدوق ثبت في المغازي و في حديثه عن غير ابن إسحاق لين، ولم يثبت أن وكيعا كذبه، وله في البخاري موضع واحد متابعة» یعنی زیاد بن عبداللہ عامری بکائی کوفی فن مغازی و سیر میں صدوق اور ثقہ ہیں، اور محمد بن اسحاق صاحب المغازی کے سوا دوسرے رواۃ سے ان کی حدیث میں کمزوری ہے، وکیع سے ان کی تکذیب ثابت نہیں ہے، اور صحیح بخاری میں ان کا ذکر متابعت میں ایک بار آیا ہے۔ (الفریوائی)
۲؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ولیمہ دو دن تک تو درست ہے اور تیسرے دن اس کا اہتمام کرنا دکھاوا اور نمائش کا ذریعہ ہے اور بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ تیسرے دن کی ممانعت اس صورت میں ہے جب کھانے والے وہی لوگ ہوں لیکن اگر ہر روز نئے لوگ مدعو ہوں، تو کوئی حرج نہیں، امام بخاری جیسے محدثین کرام تو سات دن تک ولیمہ کے قائل ہیں۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (1915) // ضعيف الجامع الصغير (3616) //

قال الشيخ زبير على زئي: (1097) إسناده ضعيف ¤ عطاء بن السائب :اختلط( تقدم: 184) وللحديث شواھد ضعيفة عند أبى داود (3745) وغيره