الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ترمذي
كتاب النكاح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: نکاح کے احکام و مسائل
16. باب مَا جَاءَ لاَ نِكَاحَ إِلاَّ بِبَيِّنَةٍ
16. باب: گواہ کے بغیر نکاح درست نہیں۔
حدیث نمبر: 1103
حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ حَمَّادٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الْبَغَايَا اللَّاتِي يُنْكِحْنَ أَنْفُسَهُنَّ بِغَيْرِ بَيِّنَةٍ ". قَالَ يُوسُفُ بْنُ حَمَّادٍ: رَفَعَ عَبْدُ الْأَعْلَى هَذَا الْحَدِيثَ فِي التَّفْسِيرِ، وَأَوْقَفَهُ فِي كِتَابِ الطَّلَاقِ، وَلَمْ يَرْفَعْهُ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زنا کار ہیں وہ عورتیں جو گواہوں کے بغیر خود نکاح کر لیتی ہیں۔ یوسف بن حماد کہتے ہیں کہ عبدالاعلی نے اس حدیث کو کتاب التفسیر میں مرفوع بیان کیا ہے اور کتاب الطلاق میں اسے انہوں نے موقوفاً بیان کیا ہے، مرفوع نہیں کیا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب النكاح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1103]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 5387) (ضعیف) (مؤلف نے سبب کی وضاحت کر سنن الدارمی/ ہے، مگر دوسرے نصوص سے گواہ کا واجب ہونا ثابت ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الإرواء (1862) // ضعيف الجامع الصغير (2375) //

قال الشيخ زبير على زئي: (1103) (1104) إسناده ضعيف ¤ قتاده مدلس (تقدم:30) وعنعن

حدیث نمبر: 1104
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ نَحْوَهُ، وَلَمْ يَرْفَعْهُ وَهَذَا أَصَحُّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَيْرُ مَحْفُوظٍ لَا نَعْلَمُ أَحَدًا رَفَعَهُ، إِلَّا مَا رُوِيَ عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَى، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ مَرْفُوعًا، وَرُوِي عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَى، عَنْ سَعِيدٍ هَذَا الْحَدِيثُ مَوْقُوفًا، وَالصَّحِيحُ مَا رُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَوْلُهُ: لَا نِكَاحَ إِلَّا بِبَيِّنَةٍ، هَكَذَا رَوَى أَصْحَابُ قَتَادَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ: لَا نِكَاحَ إِلَّا بِبَيِّنَةٍ، وَهَكَذَا رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ نَحْوَ هَذَا مَوْقُوفًا، وَفِي هَذَا الْبَاب: عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، وَأَنَسٍ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ مِنَ التَّابِعِينَ وَغَيْرِهِمْ، قَالُوا: لَا نِكَاحَ إِلَّا بِشُهُودٍ، لَمْ يَخْتَلِفُوا فِي ذَلِكَ مَنْ مَضَى مِنْهُمْ، إِلَّا قَوْمًا مِنَ الْمُتَأَخِّرِينَ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَإِنَّمَا اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي هَذَا إِذَا شَهِدَ وَاحِدٌ بَعْدَ وَاحِدٍ، فَقَالَ أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ وَغَيْرِهِمْ: " لَا يَجُوزُ النِّكَاحُ حَتَّى يَشْهَدَ الشَّاهِدَانِ مَعًا عِنْدَ عُقْدَةِ النِّكَاحِ " وَقَدْ رَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ: " إِذَا أُشْهِدَ وَاحِدٌ بَعْدَ وَاحِدٍ، فَإِنَّهُ جَائِزٌ إِذَا أَعْلَنُوا ذَلِكَ " وَهُوَ قَوْلُ: مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، وَغَيْرِهِ، هَكَذَا قَالَ إِسْحَاق فِيمَا حَكَى عَنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: " يَجُوزُ شَهَادَةُ رَجُلٍ وَامْرَأَتَيْنِ فِي النِّكَاحِ " وَهُوَ قَوْلُ: أَحْمَدَ، وَإِسْحَاق.
اس سند سے بھی سعید بن ابی عروبہ نے اسی طرح کی حدیث بیان کی ہے لیکن انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا۔ اور یہی زیادہ صحیح ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غیر محفوظ ہے،
۲- ہم کسی کو نہیں جانتے جس نے اسے مرفوع کیا ہو سوائے اس کے جو عبدالاعلیٰ سے مروی ہے انہوں نے سعید بن ابی عروبہ سے اور سعید نے قتادہ سے مرفوعاً روایت کی ہے،
۳- اور عبدالاعلیٰ سے سعید بن ابی عروبہ کے واسطے سے یہ موقوفا بھی مروی ہے۔ اور صحیح وہ ہے جو ابن عباس کے قول سے مروی ہے کہ بغیر گواہ کے نکاح نہیں، خود ابن عباس کا قول ہے،
۴- اسی طرح سے اور کئی لوگوں نے بھی سعید بن ابی عروبہ سے اسی طرح کی روایت موقوفاً کی ہے،
۵- اس باب میں عمران بن حصین، انس اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۶- صحابہ کرام اور تابعین وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے، یہ لوگ کہتے ہیں کہ بغیر گواہ کے نکاح درست نہیں۔ پہلے کے لوگوں میں اس سلسلے میں کوئی اختلاف نہیں تھا لیکن متاخرین اہل علم میں سے کچھ لوگوں نے اس میں اختلاف کیا ہے،
۷- اہل علم میں اس سلسلے میں اختلاف ہے جب ایک دوسرے کے بعد گواہی دے یعنی دونوں بیک وقت مجلس نکاح میں حاضر نہ ہوں تو کوفہ کے اکثر اہل علم کا کہنا ہے کہ نکاح اسی وقت درست ہو گا جب عقد نکاح کے وقت دونوں گواہ ایک ساتھ موجود ہوں،
۸- اور بعض اہل مدینہ کا خیال ہے کہ جب ایک کے بعد دوسرے کو گواہ بنایا گیا ہو تو بھی جائز ہے جب وہ اس کا اعلان کر دیں۔ یہ مالک بن انس وغیرہ کا قول ہے۔ اسی طرح کی بات اسحاق بن راہویہ نے بھی کہی ہے جو اہل مدینہ نے کہی ہے،
۹- اور بعض اہل علم کہتے ہیں کہ نکاح میں ایک مرد اور دو عورتوں کی شہادت جائز ہے، یہ احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب النكاح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1104]
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (ضعیف) (سعید بن ابی عروبہ اور قتادہ دونوں مدلس ہیں اور روایت عنعنہ ہے)»

قال الشيخ الألباني: **

قال الشيخ زبير على زئي: (1103) (1104) إسناده ضعيف ¤ قتاده مدلس (تقدم:30) وعنعن