الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ترمذي
كتاب النكاح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: نکاح کے احکام و مسائل
18. باب مَا جَاءَ فِي اسْتِئْمَارِ الْبِكْرِ وَالثَّيِّبِ
18. باب: کنواری اور ثیبہ (شوہر دیدہ) سے اجازت لینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1107
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تُنْكَحُ الثَّيِّبُ حَتَّى تُسْتَأْمَرَ، وَلَا تُنْكَحُ الْبِكْرُ حَتَّى تُسْتَأْذَنَ، وَإِذْنُهَا الصُّمُوتُ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عُمَرَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَائِشَةَ، وَالْعُرْسِ بْنِ عَمِيرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، أَنَّ الثَّيِّبَ لَا تُزَوَّجُ حَتَّى تُسْتَأْمَرَ وَإِنْ زَوَّجَهَا الْأَبُ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَسْتَأْمِرَهَا فَكَرِهَتْ ذَلِكَ فَالنِّكَاحُ مَفْسُوخٌ عِنْدَ عَامَّةِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي تَزْوِيجِ الْأَبْكَارِ إِذَا زَوَّجَهُنَّ الْآبَاءُ، فَرَأَى أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ وَغَيْرِهِمْ، أَنَّ الْأَبَ إِذَا زَوَّجَ الْبِكْرَ وَهِيَ بَالِغَةٌ بِغَيْرِ أَمْرِهَا فَلَمْ تَرْضَ بِتَزْوِيجِ الْأَبِ فَالنِّكَاحُ مَفْسُوخٌ، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ: تَزْوِيجُ الْأَبِ عَلَى الْبِكْرِ جَائِزٌ وَإِنْ كَرِهَتْ، ذَلِكَ وَهُوَ قَوْلُ: مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «ثیبہ» (شوہر دیدہ عورت خواہ بیوہ ہو یا مطلقہ) کا نکاح نہ کیا جائے جب تک کہ اس کی رضا مندی ۱؎ حاصل نہ کر لی جائے، اور کنواری ۲؎ عورت کا نکاح نہ کیا جائے جب تک کہ اس کی اجازت نہ لے لی جائے اور اس کی اجازت خاموشی ہے ۳؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عمر، ابن عباس، عائشہ اور عرس بن عمیرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ «ثیبہ» (شوہر دیدہ) کا نکاح اس کی رضا مندی حاصل کیے بغیر نہیں کیا جائے گا۔ اگر اس کے باپ نے اس کی شادی اس کی رضا مندی کے بغیر کر دی اور اسے وہ ناپسند ہو تو تمام اہل علم کے نزدیک وہ نکاح منسوخ ہو جائے گا،
۴- کنواری لڑکیوں کے باپ ان کی شادی ان کی اجازت کے بغیر کر دیں تو اہل علم کا اختلاف ہے۔ کوفہ وغیرہ کے اکثر اہل علم کا خیال ہے کہ باپ اگر کنواری لڑکی کی شادی اس کی اجازت کے بغیر کر دے اور وہ بالغ ہو اور پھر وہ اپنے والد کی شادی پر راضی نہ ہو تو نکاح منسوخ ہو جائے گا ۴؎،
۵- اور بعض اہل مدینہ کہتے ہیں کہ کنواری کی شادی اگر باپ نے کر دی ہو تو درست ہے گو وہ اسے ناپسند ہو، یہ مالک بن انس، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے ۵؎۔ [سنن ترمذي/كتاب النكاح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1107]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/النکاح 9 (1419)، سنن ابن ماجہ/النکاح 11 (1871)، (تحفة الأشراف: 15384)، سنن الدارمی/النکاح 13 (2232) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: رضا مندی کا مطلب اذن صریح ہے۔
۲؎: کنواری سے مراد بالغہ کنواری ہے۔
۳؎: اس میں اذن صریح کی ضرورت نہیں خاموشی کافی ہے کیونکہ کنواری بہت شرمیلی ہوتی ہے، عام طور سے وہ اس طرح کی چیزوں میں بولتی نہیں خاموش ہی رہتی ہے۔
۴؎: ان لوگوں کی دلیل ابن عباس کی روایت «أن جارية بكراً أتت النبي صلى الله عليه وسلم فذكرت أن أباها زوجها وهي كارهة فخيرها النبي صلى الله عليه وسلم» ہے۔
۵؎: ان لوگوں نے ابن عباس کی حدیث جو آگے آ رہی ہے «الایم احق بنفسہا من ولیہا» کے مفہوم مخالف سے استدلال کیا ہے، اس حدیث کا مفہوم مخالف یہ ہوا کہ باکرہ (کنواری) کا ولی اس کے نفس کا اس سے زیادہ استحقاق رکھتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1871)

حدیث نمبر: 1108
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْفَضْلِ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الْأَيِّمُ أَحَقُّ بِنَفْسِهَا مِنْ وَلِيِّهَا، وَالْبِكْرُ تُسْتَأْذَنُ فِي نَفْسِهَا وَإِذْنُهَا صُمَاتُهَا ". هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، رَوَاهُ شُعْبَةُ، وَالثَّوْرِيُّ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، وَقَدِ احْتَجَّ بَعْضُ النَّاسِ فِي إِجَازَةِ النِّكَاحِ بِغَيْرِ وَلِيٍّ بِهَذَا الْحَدِيثِ، وَلَيْسَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ مَا احْتَجُّوا بِهِ، لِأَنَّهُ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ " وَهَكَذَا أَفْتَى بِهِ ابْنُ عَبَّاسٍ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ، وَإِنَّمَا مَعْنَى قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْأَيِّمُ أَحَقُّ بِنَفْسِهَا مِنْ وَلِيِّهَا " عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ: " أَنَّ الْوَلِيَّ لَا يُزَوِّجُهَا إِلَّا بِرِضَاهَا وَأَمْرِهَا، فَإِنْ زَوَّجَهَا فَالنِّكَاحُ مَفْسُوخٌ عَلَى حَدِيثِ خَنْسَاءَ بِنْتِ خِدَامٍ، حَيْثُ زَوَّجَهَا أَبُوهَا وَهِيَ ثَيِّبٌ فَكَرِهَتْ ذَلِكَ، فَرَدَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِكَاحَهُ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ «ثیبہ» (شوہر دیدہ) عورت اپنے آپ پر اپنے ولی سے زیادہ استحقاق رکھتی ہے ۱؎ اور کنواری سے بھی اجازت طلب کی جائے گی اور اس کی اجازت اس کی خاموشی ہے ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- شعبہ اور ثوری نے اسے مالک بن انس سے روایت کیا ہے،
۳- بعض لوگوں نے بغیر ولی کے نکاح کے جواز پر اسی حدیث سے دلیل لی ہے۔ حالانکہ اس حدیث میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو اس کی دلیل بنے۔ اس لیے کہ ابن عباس سے کئی اور طرق سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ولی کے بغیر نکاح درست نہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ابن عباس نے بھی یہی فتویٰ دیا کہ ولی کے بغیر نکاح درست نہیں،
۴- اور «الأيم أحق بنفسها من وليها» کا مطلب اکثر اہل علم کے نزدیک یہ ہے کہ ولی ثیبہ کا نکاح اس کی رضا مندی اور اس سے مشورہ کے بغیر نہ کرے۔ اگر اس نے ایسا کیا تو خنساء بنت خدام کی حدیث کی رو سے نکاح فسح ہو جائے گا۔ ان کے والد نے ان کی شادی کر دی، اور وہ شوہر دیدہ عورت تھیں، انہیں یہ شادی ناپسند ہوئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے نکاح کو فسخ کر دیا۔ [سنن ترمذي/كتاب النكاح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1108]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/النکاح 9 (1421)، سنن ابی داود/ النکاح 26 (2098، 2100)، سنن النسائی/النکاح 31 (3262، 3265)، و32 (3266)، سنن ابن ماجہ/النکاح 11 (1870)، موطا امام مالک/النکاح 2 (4)، (تحفة الأشراف: 6517)، مسند احمد (1/219، 243، 274، 254، 355، 362)، سنن الدارمی/النکاح 13 (2234) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: لفظ «أحق» مشارکت کا متقاضی ہے، گویا غیر کنواری عورت اپنے نکاح کے سلسلہ میں جس طرح حقدار ہے اسی طرح اس کا ولی بھی حقدار ہے یہ اور بات ہے کہ ولی کی نسبت اسے زیادہ حق حاصل ہے کیونکہ ولی کی وجہ سے اس پر جبر نہیں کیا جا سکتا جب کہ خود اس کی وجہ سے ولی پر جبر کیا جا سکتا ہے، چنانچہ ولی اگر شادی سے ناخوش ہے اور اس کا منکر ہے تو بواسطہ قاضی (حاکم) اس کا نکاح ہو گا، اس توضیح سے یہ بات واضح ہو گئی کہ یہ حدیث «لا نكاح إلا بولي» کے منافی نہیں ہے۔
۲؎: اور اگر منظور نہ ہو تو کھل کر بتا دینا چاہیئے کہ مجھے یہ رشتہ پسند نہیں ہے تاکہ والدین اس کے لیے دوسرا رشتہ منتخب کریں یا اسے مطمئن کریں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1870)