الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ترمذي
كتاب النكاح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: نکاح کے احکام و مسائل
20. باب مَا جَاءَ فِي الْوَلِيَّيْنِ يُزَوِّجَانِ
20. باب: کسی لڑکی کی اگر دو ولی (الگ الگ جگہ) شادی کر دیں تو کیا حکم ہے؟
حدیث نمبر: 1110
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ، أَنَّ ّرَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أَيُّمَا امْرَأَةٍ زَوَّجَهَا وَلِيَّانِ فَهِيَ لِلْأَوَّلِ مِنْهُمَا، وَمَنْ بَاعَ بَيْعًا مِنْ رَجُلَيْنِ فَهُوَ لِلْأَوَّلِ مِنْهُمَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ لَا نَعْلَمُ بَيْنَهُمْ فِي ذَلِكَ اخْتِلَافًا، إِذَا زَوَّجَ أَحَدُ الْوَلِيَّيْنِ قَبْلَ الْآخَرِ فَنِكَاحُ الْأَوَّلِ جَائِزٌ وَنِكَاحُ الْآخَرِ مَفْسُوخٌ، وَإِذَا زَوَّجَا جَمِيعًا فَنِكَاحُهُمَا جَمِيعًا مَفْسُوخٌ، وَهُوَ قَوْلُ: الثَّوْرِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق.
سمرہ بن جندب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس عورت کی شادی دو ولی الگ الگ جگہ کر دیں تو وہ ان میں سے پہلے کے لیے ہو گی، اور جو شخص کوئی چیز دو آدمیوں سے بیچ دے تو وہ بھی ان میں سے پہلے کی ہوئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں علماء کے درمیان کسی اختلاف کا علم نہیں ہے۔ دو ولی میں سے ایک ولی جب دوسرے سے پہلے شادی کر دے تو پہلے کا نکاح جائز ہو گا، اور دوسرے کا نکاح فسخ قرار دیا جائے گا، اور جب دونوں نے ایک ساتھ نکاح (دو الگ الگ شخصوں سے) کیا ہو تو دونوں کا نکاح فسخ ہو جائے گا۔ یہی ثوری، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب النكاح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1110]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ النکاح 22 (2088)، سنن النسائی/البیوع 96 (4686)، سنن ابن ماجہ/التجارات 21 (219)، (تحفة الأشراف: 4582)، مسند احمد (5/8، 11)، سنن الدارمی/النکاح 15 (2239) (ضعیف) (حسن بصری مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے کی ہے، نیز حسن کے سمرہ رضی الله عنہ سے حدیث عقیقہ کے علاوہ دیگر احادیث کے سماع میں اختلاف ہے، مگر دیگر نصوص سے مسئلہ ثابت ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الإرواء (1853) ، أحاديث البيوع // ضعيف الجامع الصغير (2224) ، ضعيف أبي داود (449 / 2088) //