الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ترمذي
كتاب النكاح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: نکاح کے احکام و مسائل
42. باب مَا جَاءَ فِي التَّسْوِيَةِ بَيْنَ الضَّرَائِرِ
42. باب: سوکنوں کے درمیان باری کی تقسیم میں برابری کا بیان۔
حدیث نمبر: 1140
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقْسِمُ بَيْنَ نِسَائِهِ فَيَعْدِلُ، وَيَقُولُ:" اللَّهُمَّ هَذِهِ قِسْمَتِي فِيمَا أَمْلِكُ فَلَا تَلُمْنِي فِيمَا تَمْلِكُ وَلَا أَمْلِكُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ هَكَذَا رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَانَ يَقْسِمُ". وَرَوَاهُ حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ مُرْسَلًا، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَانَ يَقْسِمُ"، وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، وَمَعْنَى قَوْلِهِ: لَا تَلُمْنِي فِيمَا تَمْلِكُ، وَلَا أَمْلِكُ إِنَّمَا يَعْنِي بِهِ الْحُبَّ، وَالْمَوَدَّةَ كَذَا فَسَّرَهُ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کے درمیان باری تقسیم کرتے ہوئے فرماتے: اے اللہ! یہ میری تقسیم ہے جس پر میں قدرت رکھتا ہوں، لیکن جس کی قدرت تو رکھتا ہے، میں نہیں رکھتا، اس کے بارے میں مجھے ملامت نہ کرنا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث کو اسی طرح کئی لوگوں نے بسند «حماد بن سلمة عن أيوب عن أبي قلابة عن عبد الله بن يزيد عن عائشة» روایت کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم باری تقسیم کرتے تھے جب کہ اسے حماد بن زید اور دوسرے کئی ثقات نے بسند «أيوب عن أبي قلابة» روایت کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم باری تقسیم کرتے تھے اور یہ حماد بن سلمہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، اور جس کی قدرت تو رکھتا ہے میں نہیں رکھتا سے مراد محبت و مؤدّۃ ہے، اسی طرح بعض اہل علم نے اس کی تفسیر کی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب النكاح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1140]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ النکاح 39 (2134)، سنن النسائی/عشرة النساء 2 (3953)، سنن ابن ماجہ/النکاح 47 (1971)، (تحفة الأشراف: 1629)، سنن الدارمی/النکاح 25 (2253) (ضعیف) (حماد بن زید اور دیگر زیادہ ثقہ رواة نے اس کو ایوب سے ”عن أبي قلابة عن النبي ﷺ“ مرسلاً بیان کیا ہے، لیکن حدیث کا پہلا جزء اللهم هذا قسمي فيما أملك حسن ہے، تراجع الالبانی 346)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (1971)

حدیث نمبر: 1141
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَهِيكٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِذَا كَانَ عِنْدَ الرَّجُلِ امْرَأَتَانِ، فَلَمْ يَعْدِلْ بَيْنَهُمَا جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَشِقُّهُ سَاقِطٌ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَإِنَّمَا أَسْنَدَ هَذَا الْحَدِيثَ هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى، عَنْ قَتَادَةَ، وَرَوَاهُ هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: كَانَ يُقَالُ، وَلَا نَعْرِفُ هَذَا الْحَدِيثَ مَرْفُوعًا، إِلَّا مِنْ حَدِيثِ هَمَّامٍ وهمام ثقة حافظ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کسی شخص کے پاس دو بیویاں ہوں اور ان کے درمیان انصاف سے کام نہ لے تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا ایک پہلو جھکا ہوا ہو گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس حدیث کو ہمام بن یحییٰ نے قتادہ سے مسنداً ۱؎ روایت کیا ہے،
۲- اور اسے ہشام دستوائی نے بھی قتادہ سے روایت کیا ہے لیکن اس روایت میں ہے کہ ایسا کہا جاتا تھا …
۳- ہم اس حدیث کو صرف ہمام ہی کی روایت سے مرفوع جانتے ہیں اور ہمام ثقہ حافظ ہیں ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب النكاح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1141]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ النکاح 39 (2133)، سنن النسائی/عشرة النساء 2 (3952)، سنن ابن ماجہ/النکاح 47 (1969) (تحفة الأشراف: 12213)، مسند احمد (2/347، 371)، سنن الدارمی/النکاح 24 (2252) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے قول سے، نہ کہ عام مقولہ کے طور پر، جیسے کہا جاتا تھا جیسا کہ ہشام دستوائی کی روایت میں ہے۔
۲؎: اس لیے ان کی روایت مقبول ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1969)

قال الشيخ زبير على زئي: (1141) إسناده ضعيف / د 2133، ن3394، جه 1969