الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ترمذي
كتاب الصيد والذبائح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: شکار کے احکام و مسائل
13. باب مَا جَاءَ فِي الذَّكَاةِ فِي الْحَلْقِ وَاللَّبَّةِ
13. باب: حلق اور لبہ (سینے کے اوپری حصہ) میں ذبح کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1481
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ , وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ , قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ. ح وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ , حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ , أَنْبَأَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ , عَنْ أَبِي الْعُشَرَاءِ، عَنْ أَبِيهِ , قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَمَا تَكُونُ الذَّكَاةُ إِلَّا فِي الْحَلْقِ وَاللَّبَّةِ , قَالَ: " لَوْ طَعَنْتَ فِي فَخِذِهَا لَأَجْزَأَ عَنْكَ " , قَالَ أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ , قَالَ يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ: هَذَا فِي الضَّرُورَةِ , قَالَ: وَفِي الْبَاب , عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ , لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ , وَلَا نَعْرِفُ لِأَبِي الْعُشَرَاءِ , عَنْ أَبِيهِ , غَيْرَ هَذَا الْحَدِيثِ , وَاخْتَلَفُوا فِي اسْمِ أَبِي الْعُشَرَاءِ , فَقَالَ بَعْضُهُمْ: اسْمُهُ أُسَامَةُ بْنُ قِهْطِمٍ , وَيُقَالُ: اسْمُهُ يَسَارُ بْنُ بَرْزٍ , وَيُقَالُ: ابْنُ بَلْزٍ وَيُقَالُ: اسْمُهُ عُطَارِدٌ نُسِبَ إِلَى جَدِّهِ.
ابوالعشراء کے والد اسامہ بن مالک سے روایت ہے کہ میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا ذبح (شرعی) صرف حلق اور لبہ ہی میں ہو گا؟ آپ نے فرمایا: اگر اس کی ران میں بھی تیر مار دو تو کافی ہو گا، یزید بن ہارون کہتے ہیں: یہ حکم ضرورت کے ساتھ خاص ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف حماد بن سلمہ ہی کی روایت سے جانتے ہیں،
۲- اس حدیث کے علاوہ ابو العشراء کی کوئی اور حدیث ان کے باپ سے ہم نہیں جانتے ہیں، ابوالعشراء کے نام کے سلسلے میں اختلاف ہے: بعض لوگ کہتے ہیں: ان کا نام اسامہ بن قھطم ہے، اور کہا جاتا ہے ان کا نام یسار بن برز ہے اور ابن بلز بھی کہا جاتا ہے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کا نام عطارد ہے دادا کی طرف ان کی نسبت کی گئی ہے،
۳- اس باب میں رافع بن خدیج سے بھی روایت آئی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيد والذبائح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1481]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الضحایا 16 (2825)، سنن النسائی/الضحایا 25 (4413)، سنن ابن ماجہ/الذبائح 9 (3184)، (تحفة الأشراف: 15694) و مسند احمد (4/334)، سنن الدارمی/الأضاحي 12 (2015) (ضعیف) (سند میں ”ابوالعشراء“ مجہول ہیں، ان کے والد بھی مجہول ہیں مگر صحابی ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (3184)

قال الشيخ زبير على زئي: (1481) إسناده ضعيف / د 2825، ن 4413، جه 3184