ابوکباش کہتے ہیں کہ میں مدینہ میں تجارت کے لیے جذع یعنی دنبہ کے چھوٹے بچے لایا اور بازار مندا ہو گیا ۱؎، لہٰذا میں نے ابوہریرہ رضی الله عنہ سے ملاقات کی، اور ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”بھیڑ کے جذع کی قربانی خوب ہے!“ ابوکباش کہتے ہیں (یہ سنتے ہی) لوگ اس کی خریداری پر ٹوٹ پڑے۔ اس باب میں ابن عباس، ام بلال بنت ہلال کی ان کے والد سے اور جابر، عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہم اور ایک آدمی جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے ہیں سے بھی احادیث آئی ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ کی حدیث حسن غریب ہے، ۲- یہ ابوہریرہ رضی الله عنہ سے موقوفاً بھی مروی ہے، ۳- عثمان بن واقدیہ ابن محمد بن زیاد بن عبداللہ بن عمر بن خطاب ہیں، ۴- صحابہ کرام میں سے اہل علم اور دوسرے لوگوں کا اسی پر عمل ہے کہ بھیڑ کا جذع قربانی کے لیے کفایت کر جائے گا۔ [سنن ترمذي/كتاب الأضاحى عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1499]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 15456) وانظر مسند احمد (2/445) (ضعیف) (سند میں ”عثمان بن واقد“ حافظہ کے کمزور اور ”کدام“ و ”ابوکباش“ مجہول ہیں)»
وضاحت: ۱؎: یعنی بازار مندہ پڑ گیا دوسری جانب جذع کی قربانی درست نہ سمجھنے کی وجہ سے لوگ انہیں خرید نہیں رہے تھے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف، الضعيفة (64) ، المشكاة (1468) ، الإرواء (1143) // ضعيف الجامع الصغير (5971) //
قال الشيخ زبير على زئي: (1499) إسناده ضعيف ¤ أبو كباش: مجھول (تق: 8318) وكدام: مجھول الحال (التحرير: 5635) وثقھما الترمذي وحده
عقبہ بن عامر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بکریاں دیں تاکہ وہ قربانی کے لیے صحابہ کرام کے درمیان تقسیم کر دیں، ایک «عتود»(بکری کا ایک سال کا فربہ بچہ) یا «جدي»۱؎ باقی بچ گیا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا، تو آپ نے فرمایا: ”تم اس کی قربانی خود کر لو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- وکیع کہتے ہیں: بھیڑ کا جذع، چھ یا سات ماہ کا بچہ ہوتا ہے۔ ۳- عقبہ بن عامر سے دوسری سند سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے جانور تقسیم کیے، ایک جذعہ باقی بچ گیا، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: ”تم اس کی قربانی خود کر لو“۔ [سنن ترمذي/كتاب الأضاحى عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1500]