الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ترمذي
كتاب السير عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: جہاد کے احکام و مسائل
41. باب مَا جَاءَ فِي التَّسْلِيمِ عَلَى أَهْلِ الْكِتَابِ
41. باب: اہل کتاب کو سلام کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1602
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَا تَبْدَءُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى بِالسَّلَامِ، وَإِذَا لَقِيتُمْ أَحَدَهُمْ فِي الطَّرِيقِ، فَاضْطَرُّوهُمْ إِلَى أَضْيَقِهِ "، قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَأَنَسٍ، وَأَبِي بَصْرَةَ الْغِفَارِيِّ صَاحِبِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَمَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ: " لَا تَبْدَءُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى "، قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِنَّمَا مَعْنَى: الْكَرَاهِيَةِ، لِأَنَّهُ يَكُونُ تَعْظِيمًا لَهُمْ، وَإِنَّمَا أُمِرَ الْمُسْلِمُونَ بِتَذْلِيلِهِمْ، وَكَذَلِكَ إِذَا لَقِيَ أَحَدَهُمْ فِي الطَّرِيقِ فَلَا يَتْرُكِ الطَّرِيقَ عَلَيْهِ، لِأَنَّ فِيهِ تَعْظِيمًا لَهُمْ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہود و نصاریٰ کو سلام کرنے میں پہل نہ کرو اور ان میں سے جب کسی سے تمہارا آمنا سامنا ہو جائے تو اسے تنگ راستے کی جانب جانے پر مجبور کر دو ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابن عمر، انس رضی الله عنہم اور ابو بصرہ غفاری رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اور حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ تم خود ان سے سلام نہ کرو (بلکہ ان کے سلام کرنے پر صرف جواب دو)،
۴- بعض اہل علم کہتے ہیں: یہ اس لیے ناپسند ہے کہ پہلے سلام کرنے سے ان کی تعظیم ہو گی جب کہ مسلمانوں کو انہیں تذلیل کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اسی طرح راستے میں آمنا سامنا ہو جانے پر ان کے لیے راستہ نہ چھوڑے کیونکہ اس سے بھی ان کی تعظیم ہو گی (جو صحیح نہیں ہے)۔ [سنن ترمذي/كتاب السير عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1602]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/السلام 4 (2167)، سنن ابی داود/ الأدب 149 (5205)، (تحفة الأشراف: 1270)، ویأتي في الاستئذان برقم 2700) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: اس حدیث کی رو سے مسلمان کا یہود و نصاریٰ اور مجوس وغیرہ کو پہلے سلام کہنا حرام ہے، جمہور کی یہی رائے ہے۔ راستے میں آمنا سامنا ہونے پر انہیں تنگ راستے کی جانب مجبور کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ انہیں یہ احساس دلایا جائے کہ وہ چھوٹے لوگ ہیں۔ اور یہ غیر اسلامی حکومتوں میں ممکن نہیں اس لیے بقول ائمہ شر وفتنہ سے بچنے کے لیے جو محتاط طریقہ ہو اسے اپنانا چاہیئے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (704) ، الإرواء (1271)

حدیث نمبر: 1603
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ الْيَهُودَ إِذَا سَلَّمَ عَلَيْكُمْ أَحَدُهُمْ فَإِنَّمَا يَقُولُ: السَّامُ عَلَيْكُمْ، فَقُلْ: عَلَيْكَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہود میں سے کوئی جب تم لوگوں کو سلام کرتا ہے تو وہ کہتا ہے: «السام عليک» (یعنی تم پر موت ہو)، اس لیے تم جواب میں صرف «عليک» کہو (یعنی تم پر موت ہو)۔ [سنن ترمذي/كتاب السير عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1603]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الاستئذان 22 (6657)، والمرتدین 4 (6928)، صحیح مسلم/السلام 4 (2164)، سنن ابی داود/ الأدب 149 (5206)، سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة 134 (178)، (تحفة الأشراف: 7128)، وط/السلام 2 (3)، و مسند احمد (2/19)، وسنن الدارمی/الاستئذان 7 (2677) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (5 / 112)