الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ترمذي
كتاب القدر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: تقدیر کے احکام و مسائل
6. باب مَا جَاءَ لاَ يَرُدُّ الْقَدَرَ إِلاَّ الدُّعَاءُ
6. باب: صرف دعا ہی تقدیر ٹال سکتی ہے۔
حدیث نمبر: 2139
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ، وَسَعِيدُ بْنُ يَعْقُوبَ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ الضُّرَيْسِ، عَنْ أَبِي مَوْدُودٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ سَلْمَانَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَرُدُّ الْقَضَاءَ إِلَّا الدُّعَاءُ، وَلَا يَزِيدُ فِي الْعُمْرِ إِلَّا الْبِرُّ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي أَسِيدٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، مِنْ حَدِيثِ سَلْمَانَ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ يَحْيَى بْنِ الضُّرَيْسِ، وَأَبُو مَوْدُودٍ اثْنَانِ: أَحَدُهُمَا يُقَالُ لَهُ فِضَّةٌ، وَهُوَ الَّذِي رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ اسْمُهُ فِضَّةٌ بَصْرِيٌّ، وَالْآخَرُ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ، أَحَدُهُمَا بَصْرِيٌّ، وَالْآخَرُ مَدَنِيٌّ، وَكَانَا فِي عَصْرٍ وَاحِدٍ.
سلمان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دعا کے سوا کوئی چیز تقدیر کو نہیں ٹالتی ہے ۱؎ اور نیکی کے سوا کوئی چیز عمر میں اضافہ نہیں کرتی ہے ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث سلمان کی روایت سے حسن غریب ہے،
۲- اس باب میں ابواسید سے بھی روایت ہے،
۳- ہم اسے صرف یحییٰ بن ضریس کی روایت سے جانتے ہیں،
۴- ابومودود دو راویوں کی کنیت ہے، ایک کو فضہ کہا جاتا ہے، اور یہ وہی ہیں جنہوں نے یہ حدیث روایت کی ہے، ان کا نام فضہ ہے اور دوسرے ابومودود کا نام عبدالعزیز بن ابوسلیمان ہے، ان میں سے ایک بصرہ کے رہنے والے ہیں اور دوسرے مدینہ کے، دونوں ایک ہی دور میں تھے۔ [سنن ترمذي/كتاب القدر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2139]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ مؤالف (تحفة الأشراف: 4502) (حسن)»

وضاحت: ۱؎: «قضاء» سے مراد امر مقدر ہے، کچھ لوگوں کا کہنا ہے: مفہوم یہ ہے کہ بلا و مصیبت کے ٹالنے میں دعا بےحد موثر ہے، یہاں تک کہ اگر قضاء کا کسی چیز سے لوٹ جانا ممکن ہوتا تو وہ دعا ہوتی، جب کہ بعض لوگوں کا کہنا ہے: مراد یہ ہے کہ دعا سے قضاء کا سہل و آسان ہو جانا ہے گویا دعا کرنے والے کو یہ احساس ہو گا کہ قضاء نازل ہی نہیں ہوئی، اس کی تائید ترمذی کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں دعا جو کچھ قضاء نازل ہو چکی ہے اس کے لیے اور جو نازل نہیں ہوئی ہے اس کے لیے بھی نفع بخش ثابت ہوتی ہے۔
۲؎: عمر میں اضافہ اگر حقیقت کے اعتبار سے ہے تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ یہ اضافہ اس فرشتہ کے علم کے مطابق ہے جو انسان کے عمر پر مقرر ہے، نہ کہ اللہ کے علم کی طرف نسبت کے اعتبار سے ہے، مثلاً لوح محفوظ میں اگر یہ درج ہے کہ فلاں کی عمر اس کے حج اور عمرہ کرنے کی صورت میں ساٹھ سال کی ہو گی اور حج و عمرہ نہ کرنے کی صورت میں چالیس سال کی ہو گی تو یہ اللہ کے علم میں ہے کہ وہ حج و عمرہ کرے گا یا نہیں، اور علم الٰہی میں رد و بدل اور تغیر نہیں ہو سکتا جب کہ فرشتے کے علم میں جو ہے اس میں تبدیلی کا امکان ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن، الصحيحة (154)

قال الشيخ زبير على زئي: (2139) إسناده ضعيف ¤ سيلمان التيمي عنعن (تقدم: 2035) وفي السند علة أخري وللحديث شاھد ضعيف عند ابن ماجه (90 ،4022)