الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ترمذي
كتاب الفتن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: ایام فتن کے احکام اور امت میں واقع ہونے والے فتنوں کی پیش گوئیاں
48. باب مَا جَاءَ فِي الْخِلاَفَةِ
48. باب: خلافت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2225
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قِيلَ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ: لَوِ اسْتَخْلَفْتَ، قَالَ: " إِنْ أَسْتَخْلِفْ فَقَدِ اسْتَخْلَفَ أَبُو بَكْرٍ، وَإِنْ لَمْ أَسْتَخْلِفْ لَمْ يَسْتَخْلِفْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ طَوِيلَةٌ، وَهَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی الله عنہ سے کہا گیا: کاش! آپ کسی کو خلیفہ نامزد کر دیتے، انہوں نے کہا: اگر میں کسی کو خلیفہ مقرر کروں تو ابوبکر رضی الله عنہ نے خلیفہ مقرر کیا ہے اور اگر کسی کو خلیفہ نہ مقرر کروں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خلیفہ نہیں مقرر کیا ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس حدیث میں ایک قصہ بھی مذکور ہے ۲؎،
۲- یہ حدیث صحیح ہے، اور کئی سندوں سے ابن عمر رضی الله عنہما سے مروی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الفتن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2225]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأحکام 51 (7218)، صحیح مسلم/الإمارة 2 (1823)، سنن ابی داود/ الخراج الإمارة 8 (2939) (تحفة الأشراف: 10521)، و مسند احمد (1/43) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یعنی اگر میں کسی کو خلافت کے لیے نامزد کر دوں تو اپنے پیش رو کی اقتداء میں ایسا ہو سکتا ہے، اور اگر نہ مقرر کروں تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو اپنا خلیفہ نہیں بنایا تھا۔
۲؎: یہ قصہ صحیح مسلم میں کتاب الإمارہ کے شروع میں مذکور ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (2605)

حدیث نمبر: 2226
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا سُرَيْجُ بْنُ النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَشْرَجُ بْنُ نُبَاتَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَفِينَةُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْخِلَافَةُ فِي أُمَّتِي ثَلَاثُونَ سَنَةً ثُمَّ مُلْكٌ بَعْدَ ذَلِكَ "، ثُمَّ قَالَ لِي سَفِينَةُ: أَمْسِكْ خِلَافَةَ أَبِي بَكْرٍ، ثُمَّ قَالَ: وَخِلَافَةَ عُمَرَ، وَخِلَافَةَ عُثْمَانَ، ثُمَّ قَالَ لِي: أَمْسِكْ خِلَافَةَ عَلِيٍّ، قَالَ: فَوَجَدْنَاهَا ثَلَاثِينَ سَنَةً، قَالَ سَعِيدٌ: فَقُلْتُ لَهُ: إِنَّ بَنِي أُمَيَّةَ يَزْعُمُونَ أَنَّ الْخِلَافَةَ فِيهِمْ، قَالَ: كَذَبُوا بَنُو الزَّرْقَاءِ بَلْ هُمْ مُلُوكٌ مِنْ شَرِّ الْمُلُوكِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ عُمَرَ، وَعَلِيٍّ، قَالَا: لَمْ يَعْهَدِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْخِلَافَةِ شَيْئًا، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، قَدْ رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ، وَلَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ.
سعید بن جمہان کہتے ہیں کہ ہم سے سفینہ رضی الله عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت میں تیس سال تک خلافت رہے گی، پھر اس کے بعد ملوکیت آ جائے گی، پھر مجھ سے سفینہ رضی الله عنہ نے کہا: ابوبکر رضی الله عنہ کی خلافت، عمر رضی الله عنہ کی خلافت، عثمان رضی الله عنہ کی خلافت اور علی رضی الله عنہ کی خلافت، شمار کرو ۱؎، راوی حشرج بن نباتہ کہتے ہیں کہ ہم نے اسے تیس سال پایا، سعید بن جمہان کہتے ہیں کہ میں نے سفینہ رضی الله عنہ سے کہا: بنو امیہ یہ سمجھتے ہیں کہ خلافت ان میں ہے؟ کہا: بنو زرقاء جھوٹ اور غلط کہتے ہیں، بلکہ ان کا شمار تو بدترین بادشاہوں میں ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- کئی لوگوں نے یہ حدیث سعید بن جمہان سے روایت کی ہے، ہم اسے صرف سعید بن جمہان ہی کی روایت سے جانتے ہیں،
۳- اس باب میں عمر اور علی رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خلافت کے بارے میں کسی چیز کی وصیت نہیں فرمائی۔ [سنن ترمذي/كتاب الفتن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2226]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ السنة 9 (4646، 4647) (تحفة الأشراف: 4480)، و مسند احمد (5/221) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: مسند احمد میں سفینہ رضی الله عنہ سے ہر خلیفہ کے دور کی تصریح موجود ہے، اس تصریح کے مطابق ابوبکر رضی الله عنہ کی مدت خلافت دو سال، عمر رضی الله عنہ کی دس سال، عثمان رضی الله عنہ کی بارہ سال اور علی رضی الله عنہ کی چھ سال ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (459 و 1534 و 1535)