الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ترمذي
كتاب الفتن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: ایام فتن کے احکام اور امت میں واقع ہونے والے فتنوں کی پیش گوئیاں
63. باب مَا جَاءَ فِي ذِكْرِ ابْنِ صَائِدٍ
63. باب: ابن صائد (ابن صیاد) کا بیان۔
حدیث نمبر: 2246
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، عَنْ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: " صَحِبَنِي ابْنُ صَائِدٍ إِمَّا حُجَّاجًا، وَإِمَّا مُعْتَمِرِينَ، فَانْطَلَقَ النَّاسُ وَتُرِكْتُ أَنَا وَهُوَ، فَلَمَّا خَلَصْتُ بِهِ اقْشَعْرَرْتُ مِنْهُ وَاسْتَوْحَشْتُ مِنْهُ مِمَّا يَقُولُ النَّاسُ فِيهِ، فَلَمَّا نَزَلْتُ، قُلْتُ لَهُ: ضَعْ مَتَاعَكَ حَيْثُ تِلْكَ الشَّجَرَةِ، قَالَ: فَأَبْصَرَ غَنَمًا فَأَخَذَ الْقَدَحَ فَانْطَلَقَ، فَاسْتَحْلَبَ ثُمَّ أَتَانِي بِلَبَنٍ، فَقَالَ لِي: يَا أَبَا سَعِيدٍ، اشْرَبْ، فَكَرِهْتُ أَنْ أَشْرَبَ مِنْ يَدِهِ شَيْئًا لِمَا يَقُولُ النَّاسُ فِيهِ، فَقُلْتُ لَهُ: هَذَا الْيَوْمُ يَوْمٌ صَائِفٌ، وَإِنِّي أَكْرَهُ فِيهِ اللَّبَنَ، قَالَ لِي: يَا أَبَا سَعِيدٍ، هَمَمْتُ أَنْ آخُذَ حَبْلًا فَأُوثِقَهُ إِلَى شَجَرَةٍ ثُمَّ أَخْتَنِقَ لِمَا يَقُولُ النَّاسُ لِي، وَفِيَّ أَرَأَيْتَ مَنْ خَفِيَ عَلَيْهِ حَدِيثِي فَلَنْ يَخْفَى عَلَيْكُمْ، أَلَسْتُمْ أَعْلَمَ النَّاسِ بِحَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، أَلَمْ يَقُلْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّهُ كَافِرٌ وَأَنَا مُسْلِمٌ، أَلَمْ يَقُلْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّهُ عَقِيمٌ لَا يُولَدُ لَهُ وَقَدْ خَلَّفْتُ وَلَدِي بِالْمَدِينَةِ، أَلَمْ يَقُلْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَدْخُلُ أَوْ لَا تَحِلُّ لَهُ مَكَّةُ وَالْمَدِينَةُ، أَلَسْتُ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ وَهُوَ ذَا أَنْطَلِقُ مَعَكَ إِلَى مَكَّةَ، فَوَاللَّهِ مَا زَالَ يَجِيءُ بِهَذَا حَتَّى قُلْتُ فَلَعَلَّهُ مَكْذُوبٌ عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: يَا أَبَا سَعِيدٍ، وَاللَّهِ لَأُخْبِرَنَّكَ خَبَرًا حَقًّا، وَاللَّهِ إِنِّي لَأَعْرِفُهُ وَأَعْرِفُ وَالِدَهُ وَأَعْرِفُ أَيْنَ هُوَ السَّاعَةَ مِنَ الْأَرْضِ، فَقُلْتُ: تَبًّا لَكَ سَائِرَ الْيَوْمِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ حج یا عمرہ میں ابن صائد (ابن صیاد) میرے ساتھ تھا، لوگ آگے چلے گئے اور ہم دونوں پیچھے رہ گئے، جب میں اس کے ساتھ اکیلے رہ گیا تو لوگ اس کے بارے میں جو کہتے تھے اس کی وجہ سے میرے رونگٹے کھڑے ہونے لگے اور اس سے مجھے خوف محسوس ہونے لگا، چنانچہ جب میں سواری سے اترا تو اس سے کہا: اس درخت کے پاس اپنا سامان رکھ دو، پھر اس نے کچھ بکریوں کو دیکھا تو پیالہ لیا اور جا کر دودھ نکال لایا، پھر میرے پاس دودھ لے آیا اور مجھ سے کہا: ابوسعید! پیو، لیکن میں نے اس کے ہاتھ کا کچھ بھی پینا پسند نہیں کیا، اس وجہ سے جو لوگ اس کے بارے میں کچھ کہتے تھے (یعنی دجال ہے) چنانچہ میں نے اس سے کہا: آج کا دن سخت گرمی کا ہے اس لیے میں آج دودھ پینا بہتر نہیں سمجھتا، اس نے کہا: ابوسعید! میں نے ارادہ کیا ہے کہ ایک رسی سے اپنے آپ کو اس درخت سے باندھ لوں اور گلا گھونٹ کر مر جاؤں یہ اس وجہ سے کہ لوگ جو میرے بارے میں کہتے ہیں، بدگمانی کرتے ہیں، آپ بتائیے لوگوں سے میری باتیں بھلے ہی چھپی ہوں مگر آپ سے تو نہیں چھپی ہیں؟ انصار کی جماعت! کیا آپ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے سب سے بڑے جانکار نہیں ہیں؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (دجال کے بارے میں) یہ نہیں فرمایا ہے کہ وہ کافر ہے؟ جب کہ میں مسلمان ہوں، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ بانجھ ہے؟ اس کی اولاد نہیں ہو گی، جب کہ میں نے مدینہ میں اپنی اولاد چھوڑی ہے، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ مدینہ اور مکہ میں داخل نہیں ہو گا؟ کیا میں مدینہ کا نہیں ہوں؟ اور اب آپ کے ساتھ چل کر مکہ جا رہا ہوں، ابو سعید خدری کہتے ہیں: اللہ کی قسم! وہ ایسی ہی دلیلیں پیش کرتا رہا یہاں تک کہ میں کہنے لگا: شاید لوگ اس کے متعلق جھوٹ بولتے ہیں، پھر اس نے کہا: ابوسعید! اللہ کی قسم! اس کے بارے میں آپ کو سچی بات بتاؤں؟ اللہ کی قسم! میں دجال کو جانتا ہوں، اس کے باپ کو جانتا ہوں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ وہ اس وقت زمین کے کس خطہٰ میں ہے تب میں نے کہا: تمہارے لیے تمام دن تباہی ہو ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الفتن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2246]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الفتن 19 (2927/91) (تحفة الأشراف: 4328) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یعنی جو دلائل تم نے پیش کئے ان کی بنیاد پر تمہارے متعلق میں نے جو حسن ظن قائم کیا تھا تمہاری اس آخری بات کو سن کر میرا حسن ظن جاتا رہا اور مجھے تجھ سے بدگمانی ہو گئی (شاید یہ اس کے ذہنی مریض ہونے کی وجہ سے تھا، یہی وجہ ہے کہ لوگ اس کو اس کی اول فول باتوں کی وجہ سے دجال تک سمجھنے لگے)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 2247
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: لَقِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ابْنَ صَائِدٍ فِي بَعْضِ طُرُقِ الْمَدِينَةِ فَاحْتَبَسَهُ، وَهُوَ غُلَامٌ يَهُودِيٌّ وَلَهُ ذُؤَابَةٌ وَمَعَهُ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟ فَقَالَ: أَتَشْهَدُ أَنْتَ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: آمَنْتُ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، قَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا تَرَى؟ قَالَ: أَرَى عَرْشًا فَوْقَ الْمَاءِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَرَى عَرْشَ إِبْلِيسَ فَوْقَ الْبَحْرِ، قَالَ: فَمَا تَرَى؟ قَالَ: أَرَى صَادِقًا وَكَاذِبِينَ، أَوْ صَادِقِينَ وَكَاذِبًا، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لُبِسَ عَلَيْهِ فَدَعَاهُ "، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ عُمَرَ، وَحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ، وَابْنِ عُمَرَ، وَأَبِي ذَرٍّ، وَابْنِ مَسْعُودٍ، وَجَابِرٍ، وَحَفْصَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابن صائد سے مدینہ کے کسی راستہ میں ملے، آپ نے اسے پکڑ لیا، وہ ایک یہودی لڑکا تھا، اس کے سر پر ایک چوٹی تھی، اس وقت آپ کے ساتھ ابوبکر اور عمر رضی الله عنہما بھی تھے، آپ نے فرمایا: کیا تم گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟، اس نے کہا: کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اللہ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور یوم آخرت پر ایمان لایا ہوں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تم کیا دیکھتے ہو؟ ۱؎ اس نے کہا: پانی کے اوپر ایک عرش دیکھتا ہوں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سمندر کے اوپر ابلیس کا عرش دیکھتے ہو، آپ نے فرمایا: اور بھی کچھ دیکھتے ہو؟ اس نے کہا: ایک سچا اور دو جھوٹے یا دو جھوٹے اور ایک سچے کو دیکھتا ہوں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس پر معاملہ مشتبہ ہو گیا ہے، پھر آپ نے اسے چھوڑ دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- اس باب میں عمر، حسین بن علی، ابن عمر، ابوذر، ابن مسعود، جابر اور حفصہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الفتن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2247]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الفتن 19 (2925/87) (تحفة الأشراف: 4329) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یعنی جو لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ ہے، اور جس کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہے، اس میں سے کیا دیکھتے ہو؟۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 2248
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْجُمَحِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَمْكُثُ أَبُو الدَّجَّالِ وَأُمُّهُ ثَلَاثِينَ عَامًا لَا يُولَدُ لَهُمَا وَلَدٌ، ثُمَّ يُولَدُ لَهُمَا غُلَامٌ أَعْوَرُ أَضَرُّ شَيْءٍ وَأَقَلُّهُ مَنْفَعَةً، تَنَامُ عَيْنَاهُ وَلَا يَنَامُ قَلْبُهُ "، ثُمَّ نَعَتَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَوَيْهِ، فَقَالَ: " أَبُوهُ طِوَالٌ ضَرْبُ اللَّحْمِ كَأَنَّ أَنْفَهُ مِنْقَارٌ، وَأُمُّهُ فِرْضَاخِيَّةٌ طَوِيلَةُ الْيَدَيْنِ "، فَقَالَ أَبُو بَكْرَةَ: فَسَمِعْنَا بِمَوْلُودٍ فِي الْيَهُودِ بِالْمَدِينَةِ، فَذَهَبْتُ أَنَا وَالزُّبَيْرُ بْنُ الْعَوَّامِ حَتَّى دَخَلْنَا عَلَى أَبَوَيْهِ، فَإِذَا نَعْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِمَا، فَقُلْنَا: هَلْ لَكُمَا وَلَدٌ؟ فَقَالَا: مَكَثْنَا ثَلَاثِينَ عَامًا لَا يُولَدُ لَنَا وَلَدٌ ثُمَّ وُلِدَ لَنَا غُلَامٌ أَعْوَرُ أَضَرُّ شَيْءٍ وَأَقَلُّهُ مَنْفَعَةً، تَنَامُ عَيْنَاهُ وَلَا يَنَامُ قَلْبُهُ، قَالَ: فَخَرَجْنَا مِنْ عِنْدِهِمَا، فَإِذَا هُوَ مُنْجَدِلٌ فِي الشَّمْسِ فِي قَطِيفَةٍ لَهُ وَلَهُ هَمْهَمَةٌ فَكَشَّفَ عَنْ رَأْسِهِ، فَقَالَ: مَا قُلْتُمَا؟ قُلْنَا: وَهَلْ سَمِعْتَ مَا قُلْنَا؟ قَالَ: نَعَمْ، تَنَامُ عَيْنَايَ وَلَا يَنَامُ قَلْبِي، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ.
ابوبکرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دجال کے باپ اور ماں تیس سال تک اس حال میں رہیں گے کہ ان کے ہاں کوئی لڑکا پیدا نہیں ہو گا، پھر ایک کانا لڑکا پیدا ہو گا جس میں نقصان زیادہ اور فائدہ کم ہو گا، اس کی آنکھیں سوئیں گی مگر دل نہیں سوئے گا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے والدین کا حلیہ بیان کرتے ہوئے فرمایا: اس کا باپ دراز قد اور دبلا ہو گا اور اس کی ناک چونچ کی طرح ہو گی، اس کی ماں بھاری بھر کم اور لمبے ہاتھ والی ہو گی، ابوبکرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں: ہم نے مدینہ کے اندر یہود میں ایک ایسے ہی لڑکے کے بارے میں سنا، چنانچہ میں اور زبیر بن عوام چلے یہاں تک کہ اس کے والدین کے پاس گئے تو وہ ویسے ہی تھے، جیسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا تھا، ہم نے پوچھا: کیا تمہارا کوئی لڑکا ہے؟ انہوں نے کہا: ہمارے ہاں تیس سال تک کوئی لڑکا پیدا نہیں ہوا، پھر ہم سے ایک لڑکا پیدا ہوا جس میں نقصان زیادہ اور فائدہ کم ہے، اس کی آنکھیں سوتی ہیں مگر اس کا دل نہیں سوتا، ہم ان کے پاس سے نکلے تو وہ لڑکا دھوپ میں ایک موٹی چادر پر لیٹا تھا اور کچھ گنگنا رہا تھا، پھر اس نے اپنے سر سے کپڑے ہٹایا اور پوچھا: تم دونوں نے کیا کہا ہے؟ ہم نے کہا: ہم نے جو کہا ہے کیا تم نے اسے سن لیا؟ اس نے کہا: ہاں، میری آنکھیں سوتی ہیں، مگر دل نہیں سوتا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- ہم اسے صرف حماد بن سلمہ کی روایت سے جانتے ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الفتن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2248]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 11688) (ضعیف) (سند میں ”علی بن زید بن جدعان“ ضعیف ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (5503 / التحقيق الثاني) // ضعيف الجامع الصغير (6445) //

قال الشيخ زبير على زئي: (2248) إسناده ضعيف ¤ علي بن زيد : ضعيف (تقدم:589)

حدیث نمبر: 2249
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِابْنِ صَيَّادٍ فِي نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِهِ فِيهِمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، وَهُوَ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ عِنْدَ أُطُمِ بَنِي مَغَالَةَ وَهُوَ غُلَامٌ، فَلَمْ يَشْعُرْ حَتَّى ضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ظَهْرَهُ بِيَدِهِ، ثُمَّ قَالَ: " أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟ " فَنَظَرَ إِلَيْهِ ابْنُ صَيَّادٍ، قَالَ: أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ الْأُمِّيِّينَ، ثُمَّ قَالَ ابْنُ صَيَّادٍ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَتَشْهَدُ أَنْتَ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " آمَنْتُ بِاللَّهِ وَبِرُسُلِهِ "، ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا يَأْتِيكَ؟ " قَالَ ابْنُ صَيَّادٍ: يَأْتِينِي صَادِقٌ وَكَاذِبٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خُلِّطَ عَلَيْكَ الْأَمْرُ "، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنِّي خَبَأْتُ لَكَ خَبِيئًا وَخَبَأَ لَهُ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ سورة الدخان آية 10 "، فَقَالَ ابْنُ صَيَّادٍ: هُوَ الدُّخُّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اخْسَأْ فَلَنْ تَعْدُوَ قَدْرَكَ "، قَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ائْذَنْ لِي فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنْ يَكُ حَقًّا فَلَنْ تُسَلَّطَ عَلَيْهِ، وَإِنْ لَا يَكُنْهُ فَلَا خَيْرَ لَكَ فِي قَتْلِهِ "، قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ: يَعْنِي الدَّجَّالَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ جس میں عمر بن خطاب بھی تھے ابن صیاد کے پاس سے گزرے، اس وقت وہ بچوں کے ساتھ بنی مغالہ کے ٹیلوں کے پاس کھیل رہا تھا، وہ ایک چھوٹا بچہ تھا اس لیے اسے آپ کی آمد کا احساس اس وقت تک نہ ہو سکا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اس کی پیٹھ پر مارا، پھر فرمایا: کیا تم گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ ابن صیاد نے آپ کی طرف دیکھ کر کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ امیوں کے رسول ہیں، پھر ابن صیاد نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا ہوں، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: تمہارے پاس (غیب کی) کون سی چیز آتی ہے؟ ابن صیاد نے کہا: میرے پاس ایک سچا اور ایک جھوٹا آتا ہے، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے اوپر تیرا معاملہ مشتبہ ہو گیا ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہارے لیے (دل میں) ایک بات چھپاتا ہوں اور آپ نے آیت: «يوم تأتي السماء بدخان مبين» ۱؎ چھپا لی، ابن صیاد نے کہا: وہ (چھپی ہوئی چیز) «دخ» ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھٹکار ہو تجھ پر تو اپنی حد سے آگے نہیں بڑھ سکے گا، عمر رضی الله عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجئیے میں اس کی گردن اڑا دوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر وہ حقیقی دجال ہے تو تم اس پر غالب نہیں آ سکتے اور اگر وہ نہیں ہے تو اسے قتل کرنے میں کوئی بھلائی نہیں ہے۔ عبدالرزاق کہتے ہیں: «حقا» سے آپ کی مراد دجال ہے ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الفتن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2249]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجنائز 79 (1354)، والجھاد 178 (3055)، والأدب 97 (6618)، صحیح مسلم/الفتن 19 (2930)، سنن ابی داود/ الملاحم 16 (4329) (تحفة الأشراف: 6932)، و مسند احمد (2/148) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: آپ اس دن کے منتظر رہیں جب کہ آسمان ظاہر دھواں لائے گا۔
۲؎: بعض صحابہ کرام یہ سمجھتے تھے کہ یہی وہ مسیح دجال ہے جس کے متعلق قرب قیامت میں ظہور کی خبر دی گئی ہے، لیکن فاطمہ بنت قیس کی روایت سے جس میں تمیم داری نے اپنے سمندری سفر کا حال بیان کیا ہے، معلوم ہوتا ہے کہ قطعیت اس بات میں ہے کہ ابن صیاد دجال اکبر نہیں بلکہ کوئی اور ہے، ابن صیاد تو ان دجاجلہ، کذابین میں سے ایک ہے جن کے ظہور کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی، اور ان میں سے اکثر کا ظہور ہو چکا ہے، رہے وہ صحابہ جنہوں نے وثوق کے ساتھ قسم کھا کر ابن صیاد کو دجال کہا حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بھی اسے دجال کہا گیا اور آپ خاموش رہے تو یہ سب تمیم داری والے واقعہ سے پہلے کی باتیں ہیں۔

قال الشيخ الألباني: **