الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ترمذي
كتاب صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: احوال قیامت، رقت قلب اور ورع
49. باب مِنْهُ
49. باب:۔۔۔
حدیث نمبر: 2497
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ سُوَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ بِحَدِيثَيْنِ: أَحَدِهِمَا عَنْ نَفْسِهِ، وَالْآخَرِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: " إِنَّ الْمُؤْمِنَ يَرَى ذُنُوبَهُ كَأَنَّهُ فِي أَصْلِ جَبَلٍ يَخَافُ أَنْ يَقَعَ عَلَيْهِ، وَإِنَّ الْفَاجِرَ يَرَى ذُنُوبَهُ كَذُبَابٍ وَقَعَ عَلَى أَنْفِهِ " , قَالَ بِهِ هَكَذَا فَطَارَ.
حارث بن سوید کہتے ہیں کہ ہم سے عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ نے دو حدیثیں بیان کیں، ایک اپنی طرف سے اور دوسری نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے (یعنی ایک موقوف اور دوسری مرفوع) عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ نے کہا: مومن اپنے گناہ کو ایسا دیکھتا ہے گویا وہ پہاڑ کی جڑ میں ہے۔ ڈرتا ہے کہ اس پر وہ گر نہ پڑے ۱؎، اور فاجر اپنے گناہ کو ایک مکھی کے مانند دیکھتا ہے جو اس کی ناک پر بیٹھی ہوئی ہے، اس نے ہاتھ سے اشارہ کیا اور وہ اڑ گئی ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2497]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الدعوات 4 (6308)، صحیح مسلم/التوبة 1 (2744) (تحفة الأشراف: 9190) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یعنی اسے عذاب الٰہی کا پہاڑ اپنے سامنے نظر آتا ہے۔
۲؎: یعنی ایک فاجر شخص اپنے گناہ کے سلسلہ میں بےخوف ہوتا ہے اور اس کی نگاہ میں اس گناہ کی کوئی اہمیت نہیں، نہ ہی اسے اس پر کوئی افسوس ہوتا ہے بلکہ اس کی حیثیت اس مکھی کی طرح ہے جو ناک پر بیٹھی ہو اور ہاتھ کے اشارہ سے بھاگ جائے، اسی طرح اس کے عقل و فہم میں اس گناہ کا کوئی تصور باقی نہیں رہتا یہ ابن مسعود کی موقوف روایت ہے، (مرفوع کا ذکر آگے ہے)۔

قال الشيخ الألباني: **

حدیث نمبر: 2498
وَقَالَ: وَقَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَلَّهُ أَفْرَحُ بِتَوْبَةِ أَحَدِكُمْ مِنْ رَجُلٍ بِأَرْضِ فَلَاةٍ دَوِيَّةٍ مَهْلَكَةٍ مَعَهُ رَاحِلَتُهُ عَلَيْهَا زَادُهُ وَطَعَامُهُ وَشَرَابُهُ وَمَا يُصْلِحُهُ، فَأَضَلَّهَا فَخَرَجَ فِي طَلَبِهَا حَتَّى إِذَا أَدْرَكَهُ الْمَوْتُ، قَالَ: أَرْجِعُ إِلَى مَكَانِي الَّذِي أَضْلَلْتُهَا فِيهِ فَأَمُوتُ فِيهِ، فَرَجَعَ إِلَى مَكَانِهِ فَغَلَبَتْهُ عَيْنُهُ فَاسْتَيْقَظَ فَإِذَا رَاحِلَتُهُ عِنْدَ رَأْسِهِ عَلَيْهَا طَعَامُهُ وَشَرَابُهُ وَمَا يُصْلِحُهُ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَفِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَالنُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یقیناً اللہ تم میں سے ایک شخص کی توبہ پر اس شخص سے کہیں زیادہ خوش ہوتا ہے جو کسی بےآب و گیاہ چٹیل میدان میں ہے اور اس کے ساتھ اس کی اونٹنی ہے جس پر اس کا توشہ، کھانا پانی اور دیگر ضرورتوں کی چیز رکھی ہوئی ہے، پھر اس کی اونٹنی کھو جاتی ہے اور وہ اسے ڈھونڈنے کے لیے نکل پڑتا ہے، یہاں تک کہ جب وہ ہلاکت کے قریب پہنچ جاتا ہے تو وہ سوچتا ہے: میں اسی جگہ لوٹ جاؤں جہاں سے میری اونٹنی کھو گئی تھی، اور وہیں مر جاؤں چنانچہ وہ لوٹ کر اسی جگہ پہنچتا ہے، اور اس پر نیند طاری ہو جاتی ہے، پھر جب بیدار ہوتا ہے تو کیا دیکھتا ہے کہ اس کی اونٹنی اس کے سر کے پاس موجود ہے اس پر اس کا کھانا پانی اور حاجت کی چیز بھی موجود ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابوہریرہ، نعمان بن بشیر اور انس بن مالک رضی الله عنہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیثیں روایت کی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2498]
تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 2499
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مَسْعَدَةَ الْبَاهِلِيُّ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " كُلُّ ابْنِ آدَمَ خَطَّاءٌ وَخَيْرُ الْخَطَّائِينَ التَّوَّابُونَ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَلِيِّ بْنِ مَسْعَدَةَ , عَنْ قَتَادَةَ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سارے انسان خطاکار ہیں اور خطا کاروں میں سب سے بہتر وہ ہیں جو توبہ کرنے والے ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے،
۲- اسے ہم صرف علی بن مسعدہ ہی کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ قتادہ سے روایت کرتے ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2499]
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الزہد 29 (4251) (تحفة الأشراف: 1315) (حسن)»

قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (4251)

قال الشيخ زبير على زئي: (2499) إسناده ضعيف / جه 4251 ¤ قتادة عنعن (تقدم:30) وفي السند علة أخري ذكرها الذهبي فى تلخيص المستدرك (244/4)