الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ترمذي
كتاب الاستئذان والآداب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: سلام مصافحہ اور گھر میں داخل ہونے کے آداب و احکام
12. باب مَا جَاءَ فِي التَّسْلِيمِ عَلَى أَهْلِ الذِّمَّةِ
12. باب: ذمیوں سے سلام کا بیان۔
حدیث نمبر: 2700
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَا تَبْدَءُوا الْيَهُودَ , وَالنَّصَارَى بِالسَّلَامِ، وَإِذَا لَقِيتُمْ أَحَدَهُمْ فِي الطَّرِيقِ فَاضْطَرُّوهُمْ إِلَى أَضْيَقِهِ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہود و نصاریٰ کو سلام کرنے میں پہل نہ کرو، اور جب تمہاری ان کے کسی فرد سے راستے میں ملاقات ہو جائے تو اسے تنگ راستے سے ہی جانے پر مجبور کرو ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الاستئذان والآداب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2700]
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 1602 (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یعنی یہود و نصاری اور غیر مسلموں کو مجبور کیا جائے کہ بھیڑ والے راستوں میں کناروں پر چلیں، اور مسلمان درمیان میں چلیں تاکہ ان کی شوکت و حشمت کا اظہار ہو۔ اور اس طرح سے ان کو سلام اور مسلمانوں کے بارے میں مزید غور وفکر کا موقع ملے، شاید کہ اللہ تعالیٰ ان کا دل عزت و غلبہ والے دین کے لیے کھول دے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (127) ، الصحيحة (704)

حدیث نمبر: 2701
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: إِنَّ رَهْطًا مِنَ الْيَهُودِ دَخَلُوا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا: السَّامُ عَلَيْكَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " عَلَيْكُمْ "، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: بَلْ عَلَيْكُمُ السَّامُ وَاللَّعْنَةُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا عَائِشَةُ " إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الرِّفْقَ فِي الْأَمْرِ كُلِّهِ " , قَالَتْ عَائِشَةُ: أَلَمْ تَسْمَعْ مَا قَالُوا؟ قَالَ: " قَدْ قُلْتُ: عَلَيْكُمْ " , وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي بَصْرَةَ الْغِفَارِيِّ، وَابْنِ عُمَرَ، وَأَنَسٍ، وَأَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْجُهَنِيِّ , قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ کچھ یہودیوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: «السّام عليك» تم پر موت و ہلاکت آئے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا: «عليكم» ۱؎، عائشہ نے (اس پر دو لفظ بڑھا کر) کہا «بل عليكم السام واللعنة» بلکہ تم پر ہلاکت اور لعنت ہو۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عائشہ! اللہ تعالیٰ ہر معاملے میں رفق، نرم روی اور ملائمیت کو پسند کرتا ہے، عائشہ رضی الله عنہا نے کہا: کیا آپ نے سنا نہیں؟ انہوں نے کیا کہا ہے؟۔ آپ نے فرمایا: تبھی تو میں نے «عليكم» کہا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عائشہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابو بصرہ غفاری، ابن عمر، انس اور ابوعبدالرحمٰن جہنی سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الاستئذان والآداب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2701]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الستتابة المرتدین 4 (6927)، صحیح مسلم/السلام 4 (2165) (تحفة الأشراف: 16437)، و مسند احمد (6/199) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: گویا آپ نے «عليكم» کہہ کر یہود کی بد دعا خود انہیں پر لوٹا دی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الروض النضير (764)