الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ترمذي
كتاب الاستئذان والآداب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: سلام مصافحہ اور گھر میں داخل ہونے کے آداب و احکام
24. باب مَا جَاءَ كَيْفَ يُكْتَبُ إِلَى أَهْلِ الشِّرْكِ
24. باب: کفار و مشرکین کو کس انداز سے خط لکھا جائے؟
حدیث نمبر: 2717
حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ بْنُ نَضْرٍ، أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَنْبَأَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّ أَبَا سُفْيَانَ بْنَ حَرْبٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ هِرَقْلَ أَرْسَلَ إِلَيْهِ فِي نَفَرٍ مِنْ قُرَيْشٍ وَكَانُوا تُجَّارًا بِالشَّامِ، فَأَتَوْهُ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، قَالَ: ثُمَّ دَعَا بِكِتَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُرِئَ فَإِذَا فِيهِ " بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، مِنْ مُحَمَّدٍ عَبْدِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى هِرَقْلَ عَظِيمِ الرُّومِ، السَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى أَمَّا بَعْدُ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو سُفْيَانَ اسْمُهُ: صَخْرُ بْنُ حَرْبٍ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ابوسفیان بن حرب رضی الله عنہ نے ان سے بیان کیا کہ وہ قریش کے کچھ تاجروں کے ساتھ شام میں تھے کہ ہرقل (شہنشاہ شام) نے انہیں بلا بھیجا، تو وہ سب اس کے پاس آئے، پھر سفیان نے آگے بات بڑھائی۔ کہا: پھر اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط منگوایا۔ پھر خط پڑھا گیا، اس میں لکھا تھا «بسم الله الرحمن الرحيم من محمد عبدالله ورسوله إلى هرقل عظيم الروم السلام على من اتبع الهدى أمابعد» میں شروع کرتا ہوں اس اللہ کے نام سے جو رحمان (بڑا مہربان) اور رحیم (نہایت رحم کرنے والا) ہے۔ یہ خط محمد کی جانب سے ہے جو اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اور ہرقل کے پاس بھیجا جا رہا ہے جو روم کے شہنشاہ ہیں۔ سلامتی ہے اس شخص کے لیے جو ہدایت کی پیروی کرے۔ امابعد: حمد و نعت کے بعد … الخ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- ابوسفیان کا نام صخر بن حرب رضی الله عنہ تھا۔ [سنن ترمذي/كتاب الاستئذان والآداب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2717]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/بدء الوحی 1 (7)، والجھاد 102 (2941)، وتفسیر آل عمران 4 (4553)، صحیح مسلم/الجھاد 27 (1773)، سنن ابی داود/ الأدب 128 (5136) (تحفة الأشراف: 4850) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح