ابوواقد حارث بن عوف لیثی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے، آپ کے ساتھ لوگ بھی بیٹھے تھے، اسی دوران اچانک تین آدمی آئے، ان میں سے دو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھ آئے، اور ایک واپس چلا گیا، جب وہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ کر رکے تو انہوں نے سلام کیا، پھر ان دونوں میں سے ایک نے مجلس میں کچھ جگہ (گنجائش) دیکھی تو وہ اسی میں (گھس کر) بیٹھ گیا۔ اور دوسرا شخص ان لوگوں کے (یعنی صحابہ) کے پیچھے جا کر بیٹھ گیا۔ اور تیسرا تو پیٹھ موڑے چلا ہی گیا تھا، پھر جب فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو مخاطب کر کے فرمایا: ”کیا میں تمہیں تینوں اشخاص کے متعلق نہ بتاؤں؟ (سنو) ان میں سے ایک نے اللہ کی پناہ حاصل کی تو اللہ نے اسے پناہ دی اور دوسرے نے شرم کی تو اللہ نے بھی اس سے شرم کی اور رہا تیسرا شخص تو اس نے اعراض کیا، چنانچہ اللہ نے بھی اس سے اعراض کیا، منہ پھیر لیا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ابو مرہ ام ہانی بنت ابی طالب رضی الله عنہا کے آزاد کردہ غلام ہیں اور ان کا نام یزید ہے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ عقیل ابن ابی طالب کے آزاد کردہ غلام ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الاستئذان والآداب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2724]
جابر بن سمرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے تو جس کو جہاں جگہ ملتی وہیں بیٹھ جاتا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ۲- یہ حدیث زہیر بن معاویہ نے سماک سے بھی روایت کی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الاستئذان والآداب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2725]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الأدب 16 (4825) (تحفة الأشراف: 2173)، و مسند احمد (5/98) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مجلس کو کشادہ رکھنا چاہیئے تاکہ ہر آنے والے کو مجلس میں بیٹھنے کیا جگہ مل جائے اور اس میں تنگی محسوس نہ کرے، مجلس میں جہاں جگہ ملے وہیں بیٹھ جانا چاہیئے، دوسرے کو اٹھا کر اس کی جگہ پر بیٹھنا ممنوع ہے، اس میں رتبے و درجے کا کوئی اعتبار نہیں، یہ اور بات ہے کہ بیٹھا ہوا شخص اپنے سے بڑے کے لیے جگہ خالی کر دے پھر تو اس جگہ بیٹھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (330) ، تخريج علم أبي خيثمة (100)
قال الشيخ زبير على زئي: (2725) إسناده ضعيف / د 4825